خالی ہاتھ ۔ ابویحییٰ
اللہ تعالیٰ کے حضور دعا مانگتے ہوئے ہاتھ اٹھا دینا شدتِ طلب کا ایک اظہار ہے اور لوگ عام حالات میں ایسے ہی دعا مانگتے ہیں۔ مگر عام طور پر لوگ یہ کام بلاسوچے سمجھے کرتے ہیں۔ تاہم انسان اگر ایک رسم و عادت سے بلند ہوکر پورے شعور اور احساس کے ساتھ اپنے ہاتھ خدا کے سامنے پھیلا دے تو یہ خدائے ذوالجلال کی غیرت کو پکارنے کا سب سے موثر طریقہ ہے۔ یہ گویا ایک بھکاری کے ان پھیلے ہوئے ہاتھوں کی تمثیل ہے جسے یقین ہوتا ہے کہ دینے والا ہاتھوں کو خالی نہیں لوٹائے گا۔ خدا جیسے سخی سے یہ بعید ہے کہ وہ کسی بھکاری کے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے۔
یہ خد اکی ہستی ہے، مگر دوسری طرف انسان کبھی دعا مانگنے سے پہلے اپنے اٹھے ہوئے ہاتھوں کو غور سے دیکھ لے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ اس کے خالی ہاتھ بھی اس دنیا کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہیں جو پہلے ہی اسے دیے جاچکے ہیں۔ انسان کے ہاتھ کٹ جائیں تو انسان چلتی پھرتی زندہ لاش بن جاتا ہے۔ وہ نہ کچھ کھا سکتا ہے، نہ پی سکتا ہے اور نہ کوئی اور ہی کام کرسکتا ہے۔
یہ ہاتھ ان گنت نعمتوں میں سے صرف ایک ہیں جو پہلے ہی انسانوں کو دی جاچکی ہوتی ہیں۔ اعضا و قوی، صحت و طاقت، رشتے ناتے، زندگی اور عافیت غرض نعمتوں کا ایک جہان ہے جس میں ہم جیتے ہیں۔ مگر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر خدا سے مانگتے وقت ہم ایک لفظ بھی شکر گزاری کا زبان سے نہیں نکالتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اٹھے ہوئے ہاتھوں کو غور سے دیکھیں، ایک ایک انگلی اور پور کو دیکھیں، اپنی ذات اور اطراف میں عطا کی گئی نعمت و انعام کی دنیا کو ہر طور سے دیکھیں تو مانگنا بھول جائیں۔ ہمارا وجود سراپا شکر بن جائے گا۔ ہماری زبان سراپا حمد بن جائے گی۔
ہمیں خدا ہی سے مانگنا ہے۔ اسی کے سامنے اپنے ہاتھ پھیلانے ہیں۔ مگر مانگنے سے پہلے تھوڑا شکر کرنا سیکھ لیں۔ کسی اور لیے نہ سہی تو اسی لیے سیکھ لیں کہ شکر سے نعمتیں بڑھتی ہیں۔