Take a fresh look at your lifestyle.

حضرت ابراہیم ؑکی امامت ۔ ابویحییٰ

[حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے قانون کی تفصیل میں لکھی گئی یہ تحریر ابو یحییٰ کی کتاب ’عروج و زوال کا قانون اور پاکستان‘ سے لی گئی ہے۔]

قرآن میں حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد کے منصب امامت کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے:
’’اور (یاد کرو) جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا تو وہ اس نے پوری کر دکھائیں۔ فرمایا: بے شک میں تمھیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔ اس نے پوچھا: اور میری اولاد میں سے؟ فرمایا: میرا یہ عہد ان لوگوں کو شامل نہیں ہے جو ظالم ہوں گے۔‘‘ (البقرہ 2:124)

اس آیت میں نہ صرف حضرت ابراہیم کے امام بنائے جانے کا بیان ہے، بلکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اولادِ ابراہیم کے لیے نصبِ امامت کا ضابطہ وہی ہے جو آنجناب ؑکے لیے تھا۔ یعنی جس طرح حضرت ابراہیم ؑکو ان کے رب نے آزمایا، اسی طرح اولادِ ابراہیم کو بھی آزمایا جائے گا۔ جو لوگ اس امتحان میں پورے اترے، انہیں دنیا میں عروج واقتدار نصیب ہوگا۔ جنھوں نے ظلم و نافرمانی کی راہ اختیار کی وہ اس منصب کے حق دار نہیں۔ بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کی پوری تاریخ کا فلسفہ اسی ایک آیت میں بیان ہوگیا ہے۔ چنانچہ ہم آگے چل کر ان دونوں کی تاریخ سے یہ بات دکھائیں گے کہ عالم اسباب میں رہتے ہوئے، ان کا عروج و زوال خدا سے وفاداری اور شریعت کی پاس داری سے وابستہ رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے کی روشنی میں حضرت ابراہیم کو بڑھاپے میں دو عظیم بیٹے اور پیغمبر اسمٰعیل اور اسحاق عطا کیے گئے۔ انہیں اپنے اس مقام کا بخوبی احساس تھا۔ چنانچہ عقیدہ اور عمل کی سطح پر خدا سے وفادار رہنے پر اپنی اولاد کو متنبہ کرنا اور خدا سے اس کے لیے دعا کرنا حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد کا خاصہ رہا ہے، (البقرہ 2: 133-127 )۔

ان میں سے چھوٹے صاحب زادے اسحاق کو کنعان (موجودہ فلسطین) کے علاقے میں آباد کیا گیا اور پہلے انہی کی اولاد کو منصب امامت سے سرفراز کیا گیا۔ جبکہ بڑے بیٹے حضرت اسماعیل کو اللہ کے حکم کے مطابق مکہ کی وادی غیر ذی زرع میں ان کی والدہ محترمہ ہاجرہ کے ہمراہ آباد کر دیا گیا۔ اس موقع پر جو شاندار دعا حضرت ابراہیم نے فرمائی، وہ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ آپ کی ذریت کا اصل مشن توحید سے عقیدہ اور عمل کی سطح پر وفاداری اور اس کی بنیاد پر ایک خدا پرستانہ معاشرے کا قیام ہے اور جو لوگ اس ضمن میں آپ کی پیروی نہیں کریں گے، ان کا آپ سے کوئی تعلق نہیں:
’’اور (یاد کرو) جب ابراہیم نے دعا کی: اے میرے رب، اس سرزمین کو پرُامن بنا اور مجھ کو اور میری اولاد کو اس بات سے محفوظ رکھ کہ ہم بتوں کو پوجیں۔ اے میرے رب، ان بتوں نے لوگوں میں سے ایک خلق کثیر کو گمراہ کر رکھا ہے تو جو میری پیروی کرے، وہ مجھ سے ہے۔ اور جو میری نافرمانی کرے تو تو بخشنے والا مہربان ہے۔ اے میرے رب، میں نے اپنی کچھ اولاد کو بن کھیتی کی وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے۔ اے میرے رب، تاکہ وہ نماز کا اہتمام کریں۔ تو تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور ان کو پھلوں کی روزی عطا فرما تاکہ وہ تیرا شکر ادا کریں۔ اے میرے رب، تو جانتا ہے جو ہم پوشیدہ رکھتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں۔ اور اللہ سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں۔ شکر ہے اس اللہ کے لیے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا فرمائے۔ بے شک میرا رب دعا کا سننے والا ہے۔ اے میرے رب، مجھے نماز کا اہتمام کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی۔ اے میرے رب، اور میری دعا قبول فرما۔‘‘ (ابراہیم 14: 41-35)
 
آل ابراہیم ؑکی امامت اور ان سے لیا گیا عہد
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کے دور میں بنی اسرائیل جب ایک زبردست آزمائش سے گزر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں امامت کے منصب پر فائز کرنے کا فیصلہ کیا:
’’بے شک فرعون سرزمین (مصر) میں بہت سرکش ہوگیا تھا اور اس نے اس کے باشندوں کو مختلف طبقوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ان میں سے ایک گروہ (بنی اسرائیل) کو اس نے دبا رکھا تھا۔ ان کے بیٹوں کو ذبح کر چھوڑتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا۔ بے شک وہ زمین میں فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ چاہتے تھے کہ ان لوگوں پر احسان کریں جو ملک میں دبا کر رکھے گئے تھے اور ان کو پیشوا بنائیں اور ان کو وراثت بخشیں اور ان کو زمین میں اقتدار عطا کریں۔‘‘، (القصص28:5-4)

قرآن کی سورۃ البقرہ اصلاً وہ مقام ہے جہاں امامت پر بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کے نصب وعزل کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اس میں اس بات کو یوں بیان کیا گیا ہے۔
’’اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری اس نعمت کو جو میں نے تم پر کی اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا والوں پر فضیلت دی۔‘‘، (البقرہ2:47)

تاہم دنیا کی پیشوائی کی یہ نعمت نسلی برتری کی بنیاد پر نہیں دی گئی بلکہ اس کی بنیاد وہ عہد تھا جس کا تفصیلی ذکر ہم بائبل کے حوالے سے آگے بیان کریں گے۔ قرآن اسے یوں بیان کرتا ہے۔
’’اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری اس نعمت کو جو میں نے تم پر کی اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو۔‘‘، (البقرہ 2:40)
اس سورہ میں ابتدائی تمہید کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مخاطب کیا اور اس عہد کی پاسداری کی طرف انہیں متوجہ کیا جو وہ خدا سے کر چکے ہیں۔ اس کے بعد ان کی تاریخ کے بعض اہم واقعات کے حوالے سے ان پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ اسی تذکرے میں بنی اسرائیل کے دوسرے جرائم کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل سے متعدد عہد لیے گئے تھے مگر وہ ہر دفعہ عہد شکن ثابت ہوئے(63,83,84,93)۔ ان میں سے خصوصاً شریعت کی پاسداری کا عہد بڑے غیر معمولی حالات میں لیا گیا تھا:
’’اور (یاد کرو) جب کہ ہم نے تم سے عہد لیا اور تمہارے اوپر طور کو اٹھایا (اور حکم دیا کہ) جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑو اور سنو(اور مانو)۔ انہوں نے کہا: ہم نے سنا اور نافرمانی کی۔ ۔ ۔ ‘‘، (البقرہ 2:93)

پھر اس سورت میں یہ بتایا گیا ہے کہ امامت کا منصب اصل میں سیدنا ابراہیم ؑ کو دیا گیا تھا اورابراہیم ؑو اسماعیل ؑ کی نسل سے ایک امتِ مسلمہ کی بعثت پہلے ہی سے اللہ تعالیٰ کی اسکیم میں شامل تھی۔ اب یہ منصب بنی اسرائیل سے ان کی نافرمانی کے نتیجے میں سلب کیا جا رہا ہے اور اٰل ابراہیم کی دوسری شاخ یعنی بنی اسماعیل میں منتقل کیا جا رہا ہے، جنہوں نے توحید کی دعوت کو قبول کر لیا ہے۔ تحویل قبلہ کا حکم (یعنی بیت المقدس سے بیت اللہ کو قبلہ بنانے کا حکم) اس کی علامت تھی جس کے فوراً بعد بنی اسماعیل کو اس منصب پر فائز کرنے کا اعلان ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
’’اور اسی طرح (یعنی جس طرح ہم نے بنی اسرائیل کو اس منصب پر فائز کیا تھا) ہم نے تمہیں ایک بیچ کی امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہی دینے والے بنو اور رسول تم پر گواہی دینے والا بنے۔‘‘ ، (البقرہ 2:143)

یہ بات زیادہ صراحت سے سورۃ الحج (22) آیات 78-75 میں بیان ہوئی ہے۔ اس کے بعد آخرِ سورت تک شریعت کے احکامات دیے گئے ہیں تاکہ اس خدا پرستانہ معاشرہ کے خدو خال دنیا کے سامنے آجائیں۔ سورت کے آخر میں شریعت سے پاسداری کے ان کے اقرار کا بیان اس طرح ہے:
’’رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس پر اس کے رب کی طرف سے اتاری گئی اور مومنین بھی۔ یہ سب ایمان لائے اللہ پر۔ ۔ ۔ اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔‘‘ (البقرہ 2:285)

صحابۂ کرام نے بنی اسرائیل کے ’’سمعنا و عصینا ‘‘ کے برعکس ’’سمعنا و اطعنا‘‘ کے الفاظ کہے۔ یہی وہ الفاظ اور عہد ہے جس کی یاد دہانی شریعت کے آخری احکامات اترتے وقت اس طرح کرائی گئی۔
’’اور اپنے اوپر اللہ کے فضل کو اور اس کے اس میثاق کو یاد رکھو جو اس نے تم سے لیا جب تم نے اقرار کیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی اور اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ (المائدہ 5:7) 

آل ابراہیم ؑکا عروج و زوال
امامت کے اس منصب کا مطلب خدا کی کسی قوم سے خصوصی قرابت نہیں کہ ہر حال میں اس قوم کی مدد کرے، بلکہ یہ پورا معاملہ آزمائش کے اصول پر کیا گیا تھا۔ چنانچہ نزول قرآن کے وقت خدا نے یہ واضح کر دیا کہ نافرمانی کی صورت میں وہ ماضی میں عذاب دینے میں کبھی جھجکا ہے اور نہ مستقبل میں جھجکے گا۔ بنی اسمٰعیل اور بنی اسرائیل، دونوں کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’نہ تمہاری آرزوؤں سے کچھ ہونے کا ہے نہ اہل کتاب کی۔ جو کوئی برائی کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا اور وہ اپنے لیے اللہ کے مقابل کوئی کارساز اور مددگار نہیں پائے گا۔‘‘ (النساء4:123)

سورۂ بنی اسرائیل (17) میں بنی اسرائیل کے عروج و زوال کی داستان بیان کی گئی اور اسے ان کے اعمال سے منسوب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:
’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو اپنے اس فیصلہ سے کتاب میں آگاہ کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد مچاؤ گے اور بہت سر اٹھاؤ گے۔ پس جب ان میں سے پہلی بار کی میعاد آئی تو ہم نے تم پر اپنے زور آور بندے مسلط کر دیے تو وہ گھروں میں گھس پڑے اور شدنی وعدہ پورا ہوکر رہا۔ پھر ہم نے تمہاری باری ان پر لوٹائی اور تمہاری مال و اولاد سے مدد کی اور تمہیں ایک کثیر التعداد جماعت بنا دیا۔ اگر تم بھلے کام کرو گے تو اپنے لیے اور اگر برے کام کرو گے تو بھی اپنے لیے۔ پھر جب دوسرے وعدہ کا وقت آیا (تو ہم نے تم پر اپنے زور آور بندے مسلط کر دیے) تاکہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور تاکہ وہ مسجد میں گھس پڑیں جس طرح پہلی بار گھس پڑے تھے اور تاکہ جس چیز پر ان کا زور چلے اسے تہس نہس کر ڈالیں۔ کیا عجب کہ تمہارا رب تم پر رحم فرمائے۔ اور اگر تم پھر وہی کرو گے تو ہم بھی وہی کریں گے۔‘‘(بنی اسرائیل 17: 8-4)

بنی اسرائیل کے بعد بنی اسماعیل کو منصب امامت پر فائز کیا گیا اور انہیں بتا دیا گیا کہ ایسا نہیں ہے کہ بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کے بعد خدا کے پاس اور لوگ نہیں بچے کہ وہ ہر حال میں ان کے ناز نخرے اٹھاتا رہے گا۔ فرمایا:
’’ایمان والو، جو تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا (تو اللہ کو کوئی پروا نہیں)، وہ جلد ایسے لوگوں کو اٹھائے گا جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے، وہ مسلمانوں کے لیے نرم مزاج اور کافروں کے لیے سخت ہوں گے، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہ کریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، وہ جس کو چاہے بخشے گا۔ اور اللہ بڑی سماعی رکھنے ولا اور علم والا ہے۔‘‘ (المائدہ 5: 54)

اس تنبیہ کے ساتھ خدا سے وفاداری کی صورت میں حکومت و اقتدار کا وعدہ بنی اسماعیل سے اس طرح کیا گیا:
’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے عمل صالح کیے، ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو زمین میں اقتدار بخشے گا، جیسا کہ ان لوگوں کو اقتدار بخشا جو ان سے پہلے گزرے، اور ان کے لیے ان کے اس دین کو متمکن کرے گا جس کو ان کے لیے پسندیدہ ٹھیرایا، اور ان کی اس خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہ ٹھیرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کریں گے تو درحقیقت وہی لوگ نا فرمان ہیں۔، (النور 24:55)