Take a fresh look at your lifestyle.

حاصل کائنات ۔ ابویحییٰ

آج عالم اسلام کے معروف عالم مولانا وحیدالدین خان صاحب کی ایک وڈیو کئی احباب نے شیئر کی جس میں انہوں نے جاوید احمد صاحب غامدی کے حالیہ دورہ امریکہ پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ اس گفتگو پر کوئی تبصرہ کرنے سے قبل ضروری ہے کہ یہ طالب علم کم و بیش تیس برس پرانے ایک واقعے کو بیان کر دے۔

یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب یہ طالب علم حق کی تلاش کے مرحلے سے گزر رہا تھا۔ الحاد سے اسلام تک کا سفر طے ہو چکا تھا۔ مگر یہ سوال باقی تھا کہ خود اسلام کی درست ترجمانی کون کر رہا ہے۔ اس خاکسار کا سارا بھروسہ اللہ ہی پر تھا۔ چنانچہ اس زمانے میں ایک ہی دعا زبان پر تھی کہ پروردگار تو آسمان سے اتر کر زمین پر آجا اور انگلی پکڑ کر یہ رہنمائی کر دے کہ تیری ترجمانی کون کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ اپنی ذات کی حد تک یہ اصول طے کر لیا تھا کہ بلاتعصب ہر شخص کو سننا اور پڑھنا ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ حقیقت مجھے معلوم تھی کہ تعصبات کے خول میں بند شخص پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کبھی ہدایت کی راہ نہیں کھولی جاتی۔

اس زمانے میں ایک صاحب علم کا مضمون نظر سے گزرا جس میں انہوں نے کچھ دیگر اہل علم کے علاوہ مذکورہ بالا دو بزرگوں سے علمی استفادے پر زور دیا تھا۔ وہ دور انٹرنیٹ کا نہیں تھا کہ دو منٹ میں کسی عالم کی ساری تصنیفات حاصل ہوجائیں۔ مگر اللہ نے کچھ ایسا کرم کیا کہ اسباب بنتے گئے اور بہت تھوڑے دنوں میں ان دونوں بزرگوں کا تمام کام میری نظر و سماعت سے دل و دماغ تک پہنچ گیا۔

گرچہ اس زمانے میں دیگر بزرگوں سے بھی علمی استفادے کا عمل جاری تھا جن میں مولانا مودودی، مولانا ابوالحسن ندوی، مولانا اشرف علی تھانوی، ڈاکٹر اسراراحمد اور اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نمایاں تھے اور بلاشبہ ان بزرگوں سے اس خاکسار نے بہت کچھ سیکھا، مگر جس علم کا وارث اللہ تعالیٰ نے ان دو بزرگوں کو کیا تھا، وہ خود پکار کر بتاتا تھا کہ یہ علم نہیں فیضان الٰہی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ ان دونوں کے خیالات قدم قدم پر میرے سابقہ تصورات اور علم سے ٹکراتے تھے۔ مگر اللہ کی رحمت نے ایسا کرم کیا کہ کوئی تعصب راہ کی رکاوٹ نہ بن سکا۔ الحمدللہ اس کے بعد مجھے کسی اور دروازے کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ میرے یہ دونوں استاذ اور بزرگ ہی مجھ تک خدائی فیضان کے پہنچنے کا ذریعہ بن گئے۔

اس عاجز پر اللہ کا سب سے بڑا کرم یہ ہے کہ میں انسانی عظمتوں کا کبھی اسیر نہیں رہا۔ جس شخص نے خدا کی عظمت کو دریافت کیا ہو وہ کبھی کسی غیراللہ کی عظمت سے متاثر نہیں ہوسکتا۔ میرے قارئین جانتے ہیں کہ میں انسانی عظمتوں کے مینار تعمیر کرنے کا عادی نہیں ہوں۔ مگر اس بات کا اعتراف کرنا شہادت حق کا تقاضہ ہے کہ اس دور میں اُس دین حق کو اگر کسی شخص نے پانا ہے جو قرآن مجید میں موجود ہے اور جسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے تو اسے ان دو بزرگوں کے علمی مقام کے سامنے سرجھکانا پڑے گا۔

اس کے بعد اب کچھ گزارشات اس وڈیو کے حوالے سے جس کا ذکر شروع میں ہوا ہے۔ مولانا نے اس وڈیو میں جو سب سے اہم بات کہی ہے کہ میں اور مولانا غامدی جڑواں بھائی ہیں۔ دونوں کا وے آف تھنکنگ ایک ہے۔ دونوں کا کنسرن ایک ہے۔
مولانا کی یہ بات اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ دونوں بزرگوں کے کام کا اصل دائرہ جدا ہے۔ میں چونکہ ان دونوں کو پچھلے تیس سال سے جانتا ہوں اور ان کی اس سے پہلے کی لکھی ہوئی اور کہی ہوئی چیزوں سے بھی واقف ہوں، اس لیے یہ جانتا ہوں کہ دونوں مختلف نتائج فکر پر مختلف زمانوں میں پہنچے تھے۔ یہ بھی جانتا ہوں کہ دونوں کی فکری اساس، علمی پس منظر، حالات اور ماحول بھی جدا ہے۔ یہ بھی جانتا ہوں کہ دونوں بزرگ بعض معاملات میں بالکل الگ رائے رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود مولانا کی رائے سے بالکل متفق ہوں کہ دونوں کا وے آف تھنکنگ اور کنسرن ایک ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ دونوں حق کے سچے متلاشی ہیں۔ دونوں آخری درجے میں سچائی کے طلبگار رہتے ہیں۔ دونوں اپنے سے مختلف نقطہ نظر پر غور کرتے رہتے اور اپنی آرا پر نظر ثانی کرتے ہیں۔ دونوں کا کنسرن ان کی قوم، ملت، اساتذہ یا گروہ نہیں بلکہ ان کا پروردگار ہے۔ یہ ہے وہ چیز جو دونوں کو ایک ہی بنا دیتی ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کے بغیر کسی شخص کو خدا کے فیضان سے ایک قطرہ بھی نہیں مل سکتا۔ مگر بدقسمتی سے یہی چیز ہمارے مذہبی فکر میں آخری درجہ میں عنقا ہے۔

چنانچہ ان کا یہ انداز فکر ان پر خدا کی رحمتوں کے نزول کا سبب بن گیا ہے۔ ان بزرگوں کا علم اکتسابی اور مطالعے سے حاصل کیا ہوا علم نہیں بلکہ یہ وہ خدائی فیضان ہے جس کا سلسلہ ختم نبوت کے بعد بھی جاری ہے اور جس کے نتیجے میں تجدید و احیائے دین کی روایت اس امت میں زندہ ہے۔

اس خدائی فیضان کی علامت خود اس وڈیو میں بھی موجود ہے۔ مولانا نے اس وڈیو میں دو دفعہ یہ کہا ہے کہ جاوید صاحب عمر میں مجھ سے چھوٹے ہیں لیکن علم و عقل میں مجھ سے زیادہ ہیں اور یہ کہ میں اپنے آپ کو ان کا پیرو (follower) کہنے کو اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہوں۔ جن لوگوں نے مولانا کو پڑھ رکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ مولانا علم کے اس ماؤنٹ ایورسٹ پر کھڑے ہیں جس سے بلند کوئی چوٹی نہیں۔ اس حقیقت کے باوجود ان کے جملے جتنا کچھ جاوید صاحب کا تعارف ہیں، اتنا ہی مولانا کی اپنی شخصیت کا بیان ہیں کہ ان پر کس درجہ خدا کا فضل ہوا ہے۔

پھر یہ وڈیو جس دعا پر ختم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو اور مولانا غامدی کو جنت میں ایک ساتھ جمع فرمائے وہ اس بات کا اظہار ہے کہ وہ کیا ہدف ہے جس کے لیے یہ دونوں بزرگ اپنے زمانے کی تمام تر مخالفتوں کا اتنے حوصلے سے سامنا کر رہے ہیں۔ یہ خدا کی رضا اور اس کی جنت ہے جو ایک تنہا انسان کو بھی زمانے سے ٹکرا دیتی ہے۔

میں کبھی کبھی دوستوں میں ازراہ تفنن یہ کہہ دیتا ہوں کہ ان دونوں بزرگوں کی زندگی ان کی قبولیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جس روز ان کا انتقال ہوگا، دنیا دیکھے گی کہ تاریخ دعوت و عزیمت کی داستان میں ان کا نام خوبخود رقم ہوجائے گا۔ اس لیے مجھے ان بزرگوں کی مخالفت سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ پریشانی اس بات سے ہوتی ہے کہ ان کے وابستگان ان کے بعد ان کے بت بنا کر بعد والوں کی عظمت کا اعتراف کریں گے نہ انھیں اختلاف رائے کی اجازت دیں گے۔ یہ اہل مذہب کی تاریخ ہے۔ اس کا کیا علاج کیا جائے۔ مسیحیوں نے رومیوں کے سارے بت گرا دیے تھے اور آخر میں مسیح کا اپنابت تراش لیا تھا۔ بت شکنی کے بعد بت تراشی کا یہ عمل اب بھی ہوگا۔ اس مرض کا کوئی علاج ممکن نہیں۔

لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ہزاروں لاکھوں برس پر پھیلی یہ بساط اسی لیے بچھائی گئی تھی کہ انسانی عظمتوں میں گھرے لوگوں کے درمیان وہ لوگ ڈھونڈے جائیں جو خدائی عظمت کو دریافت کرلیں۔ فرقہ واریت اور قوم پرستی کی زنجیروں میں اسیر لوگوں کے درمیان ان خدا پرستوں کو ڈھونڈا جائے جن کا سب سے بڑا مسئلہ سچائی اور حق ہو۔ دنیا کی محبت اور مفاد میں اندھے ہوجانے والوں کے درمیان جنت کے حقیقی خواہش مند کرداروں کی تلاش کی جائے۔ خواہشات اور تعصبات کے اندھوں کے درمیان صاحبان بصیرت تلاش کیے جائیں۔

یہ تلاش اس دنیا کی تمام تر خرابیوں کے باجود آج بھی کامیابی سے جاری ہے۔ گو جہنم بھی بھر رہی ہے مگر جنت میں بھی کم لوگ نہیں آئے۔ انبیا اور ان کے وارث علما کی تاریخ دعوت و عزیمت کا حاصل یہی سچے لوگ ہیں۔ یہی لوگ حاصل کائنات ہیں۔