Take a fresh look at your lifestyle.

تاریخ اورختم نبوت 2 ۔ ابویحییٰ

تاریخ اور ختم نبوت (حصہ ا)

محترم قارئین تاریخ اور ختم نبوت کے حوالے سے ایک مضمون شروع کیا تھا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نبوت اگر ختم کی گئی ہے تو اس سے قبل کس طرح دین کی حفاظت کا وہ اہتمام کیا گیا ہے جس کی بنا پر ہمارے دین کی تعلیمات اب ایک تاریخی مسلمے کی حیثیت سے دنیا کے سامنے موجود ہیں۔ اس مضمون کا باقی اور زیادہ اہم حصہ آپ کی خدمت میں پیش ہے۔

رسول اللہ صلی وعلیہ وسلم کے دور میں بننے والی تاریخ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 570ء میں مکہ میں پیدا ہوئے اور 632ء میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپ نے 40 برس کی عمر میں اعلان نبوت فرمایا اور صرف 23 برس کی مختصر مدت کے بعد آپ انسانی تاریخ کے سب سے کامیاب انسان کی حیثیت سے دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپ کو اپنی قوم پر جو غلبہ اور اپنے مشن میں جو کامیابی حاصل ہوئی اس کے چند پہلو بہت اہم ہیں۔ یہ پہلو درج ذیل ہیں۔

۱) پوری قوم کا ایمان
آپ نے 40 برس کی عمر میں نبوت کا اعلان کیا تو آپ تنہا مسلمان تھے۔ مگر 23 برس کے بعد جب آپ دنیا سے رخصت ہوئے تو انسانی تاریخ کا یہ عجیب واقعہ رونما ہوچکا تھا کہ آپ کی پوری قوم یعنی بنی اسماعیل، تمام کے تمام، آپ پر ایمان لا کر آپ کے پیروکار بن چکے تھے۔ آپ اور آپ کی قوم کے درمیان جاری کشمکش میں بمشکل ہزار لوگ ہی مارے گئے۔ باقی قوم ایمان لے آئی اور آپ کا مشن پھیلانے کے لیے آپ کے بعد موجود رہی۔ خیال رہے کہ آپ کی قوم دنیا کے دور دراز خطے میں موجود کوئی چھوٹا قبیلہ یا گروہ نہ تھا بلکہ اُس دور کی متمدن دنیا کے مرکز میں واقع لاکھوں مربع میل پر پھیلے ہوئے جزیرہ نما عرب میں لاکھوں افراد پر مشتمل ایک پوری قوم تھی۔

۲) تربیت کا بھرپور وقت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن 8 ہجری میں فتح مکہ کے ساتھ پورا ہوگیا۔ کفار مکہ کے قبول اسلام کے بعد تمام عرب سے آپ کی مخالفت ختم ہوگئی اور لوگ جوق در جوق ایمان لانے لگے۔ فتح مکہ رمضان 8 ہجری تا وفات ربیع الاول 11 ہجری تک آپ کے پاس ڈھائی برس کا وقت تھا جس میں لوگ آپ کے پاس آتے رہے اور دین سیکھتے رہے۔ آپ کے پاس پرامن حالات میں لوگوں کو دین سکھانے، سمجھانے اور پھیلانے کے لیے 30 مہینے کا طویل وقت تھا۔ پھر آخری حج کے موقع پر تمام عرب سے کم و بیش ایک لاکھ  لوگ حج کے لیے آپ کے ساتھ آئے۔ گویا عرب کے ہر گھر، بستی، قریے کا ایک نہ ایک آدمی لازما ًاس موقع پر موجود تھا۔ اس حج کا خصوصی مقصد لوگوں کو یہ موقع دینا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست دین سیکھ لیں۔ اس طرح یہ بات پورے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ جو دین آپ لائے وہ پوری قوم کو خود اپنی نگرانی میں سکھا کر رخصت ہوئے۔

۳) مکمل سیاسی استحکام اور غلبہ
اس دنیا میں کسی بھی فکر کے لیے یہ بڑا مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ اخلاقی اور علمی بنیادوں پر مخالفین پر فتح حاصل کر لے تب بھی مخالفین کی سیاسی طاقت اس کے قدم جمنے نہیں دیتی۔ تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی میں عرب پر مکمل سیاسی غلبہ حاصل ہوچکا تھا۔ آپ پورے عرب کے بلاشرکت غیر حکمران تھے اور تمام مخالفین اسلام لے آئے، ختم ہوگئے یا پھر ذلت آمیز محتاجی میں سر اطاعت خم کیے ہوئے تھے۔ یہ غلبہ آپ کے خلفائے راشدین کے درمیانی عرصے تک تقریباً اگلے 20 برس میں اتنا بڑھا کہ تمام متمدن دنیا آپ کے ابتدائی پیروکاروں کے سامنے مغلوب ہوچکی تھی۔ تمام دنیا کے خزانے، وسائل اور طاقت اب مسلمانوں کے قبضے میں تھی۔ چنانچہ اس بات کا کوئی امکان ہی نہیں تھا کہ کوئی بیرونی یا اندرونی قوت بانی اسلام کی تعلیمات کے فروغ اور پھیلاؤ میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈال سکے۔ کیونکہ ہر طاقت مسلمانوں کے سامنے مغلوب ہو چکی تھی اور دنیا کا ہر خزانہ ان کے لیے کھل چکا تھا۔

۴) تربیت یافتہ ٹیم
آپ کا اگلا امتیاز یہ تھا کہ آپ کی ابتدائی نبوت ہی سے آپ کو انتہائی مخلص، باشعور اور قابل ساتھیوں کی دولت میسر آگئی تھی۔ مکہ میں آپ پر سیکڑوں لوگ ایمان لا چکے تھے۔ مدینہ میں ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ ان لوگوں کو قرآن میں بار بار یہ بتا دیا گیا تھا کہ دنیا تک دین حق کی شہادت دینا ان کی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے سیکڑوں اہل ایمان مکہ کے 13 برس اور پھر ہزاروں لوگ مدینہ کے 11 برسوں میں لمحہ لمحہ حضور کے ساتھ رہے۔ آپ کے پیغام کو بھرپور طریقے سے سمجھا۔ آپ کی نگرانی میں دو عشرے تک اس پر عمل کیا۔ اقوام عالم پر شہادت حق کے شعور اور اتنی زیادہ تربیت کے بعد یہ لوگ جب خلافت راشدہ میں دنیا کی طرف متوجہ ہوئے تو ان کا اصل مقصد ایک ہی تھا۔ وہ یہ کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر شہادت حق دی تھی، ٹھیک اسی طرح انھوں نے اس دور کی متمدن دنیا کے انسانوں کے سامنے شہادت حق دی۔ چنانچہ ایک طرف انھوں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہونے والے کسی بھی ممکنہ انحراف کو پوری قوت کے ساتھ روکا، بلکہ آگے بڑھ کر ملینز (Millions) کی آبادی پر مشتمل مڈل ایسٹ میں ہر جگہ اسلام کا پیغام ٹھیک اسی طرح پہنچایا جیسے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں تک پہنچایا تھا۔

۵)عالمی تاریخی تسلسل کا حصہ بن جانا
جیسا کہ پیچھے بیان ہوا کہ جزیرہ نما عرب کوئی دور دراز علاقہ نہ تھا بلکہ چین و ہند سے لے کر مصر و یونان تک پھیلی اس وقت کی متمدن دنیا کے عین وسط میں واقع علاقہ تھا جہاں لاکھوں لوگ آباد تھے۔ یہ لوگ اس وقت کی دو عظیم ترین سپر پاورز یعنی رومی اور ساسانی سلطنت کے پڑوسی تھے اور عرب کی سرحدوں پر ان سپر پاورز  کے حلیف عرب قبائل کی حکومتیں قائم تھیں۔ تجارت کے لیے سردیوں میں یمن جاتے جہاں مشرق سے چین و ہندوستان کا مال آتا اور گرمیوں میں شام و فلسطین جاتے جہاں مغرب سے مصر و افریقہ کا مال آتا۔

سیاست اور تجارت کے اس پس منظر کی بنا پر عرب میں اس زمانے میں جو کچھ ہو رہا تھا وہ کوئی مقامی واقعہ نہیں تھا بلکہ اُس دور کی پوری دنیا کو معلوم ہو رہا تھا کہ عرب میں کیا انقلاب آچکا ہے۔ پھر خلافت راشدہ میں تو یہ دونوں ریاستیں مسلمانوں سے شکست کھا گئیں اور خود مسلمانوں نے ان کی جگہ لے لی۔ یوں عرب کا انقلاب کوئی مقامی واقعہ نہ رہا بلکہ اسی زمانے میں بین الاقوامی تاریخ کا ایک مسلمہ حصہ بن گیا۔

۶)مسلمانوں کا مسلسل باقی رہنا
اس سلسلے کی آخری اہم ترین کڑی یہ ہے کہ ابتدائی غلبے کے بعد دنیا کے نقشے سے کبھی بھی مسلمان نہیں مٹائے جاسکے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک کروڑوں بلکہ اربوں مسلمان ہر دور میں دنیا کے ہر خطے میں موجود رہے۔ بیسویں صدی کی ابتداء کے چند عشروں کو چھوڑ کر مسلمان ہمیشہ اقتدار میں رہے۔ وہ پورے تواتر، تسلسل اور اطمینان اور سکون کے ساتھ اپنے اس دین پر عمل کرتے رہے جو ان کے نبی انھیں دے کر رخصت ہوئے۔

ایک استثنائی واقعہ
مذکورہ بالا تمام چیزیں انسانی تاریخ میں پیش آنے والا ایک استثنائی واقعہ ہے جو کبھی پہلے پیش آیا نہ بعد میں ظہور پذیر ہوسکا۔ اب تمام چیزوں کو جمع کر لیجیے تو جو نتیجہ نکل رہا ہے وہ یہ ہے دنیا میں کسی بھی فکر کے لیے یہ کبھی ممکن نہیں رہا کہ فکر کا بانی اپنی دعوت پیش کرے اور اس کی زندگی ہی میں لوگ اسے قبول کرلیں۔ پھر اسے اقتدار کا تحفظ اور پرامن حالات بھی میسر آجائیں جس میں اس کی دعوت اور پیغام مکمل طور پر ہر طرح کے بیرونی خطرے سے محفوظ رہ سکے۔ وہ پورے اطمینان سے ان کی تربیت کرے، پھر اس کو ایسی مخلص اور باشعور ٹیم بھی میسر ہو جو اس کی تعلیم اور مشن کو بغیر کسی انحراف اور کمی بیشی کے دوسروں تک پہنچائے۔ عین اس کی حین حیات اور اس کے فوراً بعد یہ انقلاب عالمی تاریخی تسلسل کا غالب حصہ بن جائے اور پھر تواتر اور تسلسل کے ساتھ اُس وقت سے آج تک اس کے پیروکار اس دین پر عمل بھی کرتے رہیں۔ یہ واقعہ انسانی تاریخ میں نہ پہلے کبھی ہوا نہ بعد میں کبھی ہوسکا۔

اس بات کو دور جدید اور دور قدیم کی ایک مثال سے سمجھیں۔ حضرت موسیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تاریخ کے دوسرے کامیاب پیغمبر ہیں۔ قوم کا ایمان، مخالفین پر غلبہ، سیاسی اقتدار اور نام لیواؤں کا باقی رہنا آپ کو سب ملا۔ مگر آپ کی زندگی ہی میں آپ کی ٹیم نے بار بار آپ سے بے وفائی کی اور آپ کے بعد تاریخ میں بار بار آپ کی قوم کی جڑ کاٹی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کی لائی ہوئی کتاب اپنی اصل شکل میں محفوظ نہ رہی اور آپ کی تعلیمات کی بنیادی چیز یعنی نماز جیسی بنیادی عبادت سے آج کے یہود خود پوری طرح واقف نہیں۔جبکہ مصر کی اپنی تاریخ میں اِس پورے واقعے کا کوئی ریکارڈ سرے سے موجود ہی نہیں۔ جب حضرت موسیٰ جیسے کامیاب پیغمبر کا یہ حال ہے تو باقی پیغمبروں کو تو جانے دیجیے۔

جدید اور سیکولر مثال کمیونزم کی ہے۔ اس کے بانی کو اس کا غلبہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا اور پھر اس کے پیروکاروں نے اس کے افکار کی عملی شکل کو وجود میں لانے کیلئے جو کچھ کیا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے بلکہ سوویت یونین کی شکست کے بعد خود کمیونزم تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ اس کے برعکس نبی آخر الزماں کی دعوت مذکورہ بالا تاریخی حقائق کی بنا پر جیسے نازل ہوئی ویسے ہی آج کے دن تک موجود ہے۔

ایک نئی تاریخی حقیقت کا ظہور
مذکورہ بالا چھ عوامل کی بنا پر آج یہ ایک مسلمہ اور ناقابل انکار تاریخی حقیقت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور عرب کا انقلاب جس طرح تاریخ کا ایک مسلمہ ہے، ٹھیک اسی طرح آپ کی تعلیمات جو خود ہمیشہ جزئی چیزوں اور تفصیلات پر مشتمل ہوتی ہے بالکل ایسے ہی موجود ہے جیسے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک طرف وہ سارے مذکورہ بالا تاریخ عوامل موجود تھے جن کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا محفوظ رہنا تاریخی طور پر ممکن ہوا بلکہ آپ نے اس کے ابلاغ کے لیے جو اہتمام کیا اس کی بنا پر آپ کی تعلیمات کچھ افراد تک نہیں رہیں بلکہ پوری قوم کی قولی اور عملی روایت کا حصہ بن گئیں۔ یعنی آپ کی تعلیمات کے جزئی عناصر بھی لاکھوں اور پھر کروڑوں افراد کے قول و فعل کا اس طرح حصہ بن گئے کہ تاریخ میں پہلی دفعہ جزئیات بھی مسلّمات بن گئیں۔

اس تعلیم کا پہلا جز قرآن مجید ہے۔ الحمد سے والناس یہ کتاب جس کی حفاظت کا وعدہ اللہ نے کیا تھا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مرتب ہوگئی تھی۔ آپ خود حافظ قرآن تھے اور آپ کے زمانے ہی میں ہزاروں حفاظ موجود تھے۔ قرآن کے حفظ کی وجوہات بالکل واضح ہیں۔ اول یہ کہ اس دور میں علم کا معیار چیزوں کو زبانی یاد کرنا تھا۔ اس سے کہیں زیادہ اہم یہ حقیقت تھی کہ پنج وقتہ نماز جو اسلام کی بنیادی شرط تھی اور اس زمانے میں منافقین تک کو بھی ادا کرنی پڑتی تھی، قرآن کی قرات اس کا لازمی حصہ تھی۔ چنانچہ لاکھوں لوگوں کے لیے لازمی تھا کہ نماز پڑھنی ہے تو قرآن کا کچھ نہ کچھ حصہ یاد کرنا ہوگا۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ عرب ہماری طرح تمام نمازیں ’’قل ھو اللہ احد‘‘ کے سہارے ادا کر لیتے ہوں گے۔ انھیں قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ یاد ہوگا۔ مزید یہ کہ تہجد کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ صحابہ کی ایک بڑی تعداد کا معمول تھا۔ اس میں طویل قرات کی وجہ سے لوگ پورا قرآن یاد کر لیتے تھے۔ چنانچہ ہزاروں حفاظ حضور کے زمانے ہی میں موجود تھے۔ پھر حضرت عمر کے دور میں تراویح کا وہ اہتمام شروع ہوا جس کی بنا پر عالم اسلام کے ہر قریے اور ہر مسجد اور ہر بستی میں کسی نہ کسی حافظ کا ہونا لازمی ہوگیا۔ تب سے آج تک یہ رسم ایسے ہی جاری ہے۔ ان لاکھوں حفاظ کی وجہ سے قرآن مجید جیسا کہ وہ نازل ہوا ویسا ہی آج کے دن تک موجود ہے۔

ایک اشکال کا جواب
بعض قارئین یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اس موقع پر میں نے کتابت قرآن  کا ذکر نہیں کیا۔ بلاشبہ حفاظت قرآن مجید کے لیے یہ اہتمام بھی کیا گیا کہ نازل ہونے والی وحی کو اسی وقت لکھوا لیا جاتا تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ حفاظت قرآن کا اصل نہیں بلکہ ثانوی اہتمام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے تورات تختیوں پر اتاری مگر قرآن قول کی شکل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر محفوظ کیا گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ منشائے الٰہی یہ تھا کہ قرآن کی اصل حفاظت قول اور سماعی طریقے پر کی جائے۔ یہ بڑی حکیمانہ بات تھی۔ کیونکہ ُاس وقت عرب میں نہ کاغذ تھا، نہ پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا تھا اور نہ عام عربوں میں لکھنے کا بہت رواج تھا۔ بلکہ اصل اہتمام چیزیں یاد کرنے کا ہی تھا۔ نماز میں قرآن پڑھنے کی شرط نے اس ذوق کو مذہبی ضرورت بنا دیا اور یوں بہت سا قرآن ہر شخص کو اور پورا قرآن بہت سے لوگوں کو یاد ہوگیا۔ یوں قرآن کی اصل حفاظت حفظ و سماعت کے طریقے پر ہوئی ہے۔ کتابت ایک ثانوی اور اضافی اہتمام تھا۔ یہ بات سیدنا عمر کی اس بات سے بھی واضح ہوجاتی ہے جب جنگ یمامہ میں 400 یا بعض روایات کے مطابق 700 سے زائد صحابہ کی شہادت ہوئی تو آپ نے یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ اسی طرح جنگوں میں صحابہ کرام شہید ہوتے رہے تو قرآن ضائع نہ ہوجائے۔ صاف ظاہر ہے کہ اصل حفاظت حفظ سے ہو رہی تھی کتابت وہ اضافی اہتمام تھا جو صرف اس خطرے کے پیش نظر اختیار کیا گیا کہ حفاظ کی اکثریت شہید ہوگئی تو قرآن متاثر نہ ہو۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ حضرت عمر کے دور میں تراویح کا اہتمام ہوتے ہی یہ خطرہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔

ایک مناظرے کی روداد
قرآن کی اصل حفاظت کتابت کے بجائے حفظ و سماعت کو نمایاں کرنے کی ایک اور وجہ ہے۔ وہ یہ کہ آج کل کے مسلمانوں میں یہ بات بہت پھیل گئی ہے کہ قرآن کی حفاظت کا اصل ثبوت یہ ہے کہ حضرت عثمان کا مرتب کیا ہوا قرآن کا نسخہ استنبول کے توپ کاپی میوزیم اور تاشقند میں محفوظ ہے۔ ہم بھی عرصے تک یہی سمجھتے تھے۔ مگر بارہ تیرہ برس پہلے میں نے ایک مناظرے میں یہ تماشہ دیکھا کہ ایک مسلمان مناظر نے مسیحیت پر اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لیے جیسے ہی یہ بات کہی، جواب میں مسیحی پادری کھڑا ہوا اور اس نے بتایا کہ میں نے خود ان نسخوں کو دیکھا ہے اور ان کی کاربن ڈیٹنگ کی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نسخے اول تو حضرت عثمان کے زمانے کے بہت بعد کے ہیں۔ یعنی دوسری صدی ہجری کے اور دوسرے ان میں موجود قرآن پورا ہے بھی نہیں۔ اس کے بعد سارے مسلمان حاضرین اور ناظرین کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ اور اب یہ بات کم و بیش سارے علمی حلقوں میں تسلیم کر لی گئی ہے کہ عہد خلافت راشدہ کا کوئی قرآن اس وقت دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اس لیے اسلام مخالف مستشرقین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی نسبت یہ کہنا کہ یہ بعینیہ وہی کتاب ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی درست نہیں۔

تاہم جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ یہ ایک غلط فہمی ہے۔ قرآن اصل میں حفظ کے ذریعے محفوظ ہوا ہے۔ اور مذکورہ بالا ان چھ عوامل کی بنا پر جو ہم نے شروع میں گنوائے ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ یہ وہی قرآن ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ اگر کوئی اس کا انکار کرتا ہے تو پھر وہ اس کا بھی انکار کرتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نام کی کوئی ہستی عرب میں مبعوث ہوئی۔ انھیں اپنی قوم پر پورا غلبہ حاصل ہوا۔ ان کے ساتھ 20 برس تک ہزاروں افراد دن رات رہ کر دین سیکھتے رہے۔ ان لوگوں کو دنیا پر اقتدار حاصل ہوا اور آج کے دن تک ان کے ماننے والے دنیا میں موجود رہے۔ اگر ان تمام مسلّمات کا انکار نہیں ہوسکتا تو پھر اس حقیقت کا انکار بھی نہیں ہوسکتا کہ جو قرآن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا وہ آپ کی زندگی میں محفوظ کر لیا گیا اور آپ کے ساتھیوں نے وہ پورے اہتمام سے باقی دنیا تک اور پھر ہر دور میں آپ کے پیروکاروں نے اسے پورے اہتمام سے محفوظ کیا ہے اور آج کے دن تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔

جو شخص اس حقیقت کا منکر ہو اسے یہ سوچنا چاہیے کہ آج کے گئے گزرے دور میں جب پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد حفظ قرآن ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے، لاکھوں مسلمان پورا قرآن حفظ کرتے ہیں تو زمانہ نبوت اور خلافت راشدہ کے دور میں یہ کیسے ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام نے اس فریضے میں کوئی کوتاہی برتی ہوگی۔ اس لیے یہ بات ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہزاروں اور آپ کے بعد لاکھوں لوگ قرآن کو پورا یاد کرتے رہے اور یہی قرآن آج ہمارے پاس موجود ہے۔

اسلاف کی رائے
قرآن کی طرح ٹھیک یہی معاملہ دین کے عملی ڈھانچے کا ہے جو عبادت، معاشرت اور زندگی کے دیگر پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی سے اگر لاکھوں لوگ قرآن کو نمازوں میں پڑھ رہے تھے تو اس کے ساتھ وہ نماز بھی پڑھ رہے تھے، روزہ بھی رکھتے تھے، حج بھی کرتے تھے، زکوۃ بھی دیتے تھے، نکاح و طلاق، معیشت و معاشرت، رسوم و آداب میں ہر جگہ لوگ اسلام کے احکام پر عمل پیرا تھے۔ ایک پوری قوم کے ایمان لانے، تربیت یافتہ ہونے، مسلسل موجود ہونے کا کوئی دوسرا نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا۔ اس کا انکار تاریخی مسلمے کا انکار ہے۔ جس طرح قرآن مجید پر خلافت راشدہ کے لکھے ہوئے قرآن کی گواہی طلب کرنا ایک غیر علمی بات ہے، اسی طرح اس عملی ڈھانچے کو کسی روایت پر موقوف سمجھنا ہر اعتبار سے ایک غیر علمی رویہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کام لاکھوں لوگ کر رہے ہوں اور علما کی پوری روایت اس کی نگرانی کر رہی ہو وہ اپنی ذات میں خود ایک مسلمہ بن جاتی ہے۔ اس پر خارج سے کوئی ثبوت طلب نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وہ طریقہ ہے جس پر ہمارے اسلاف اور متقدمین دین کی حجیت ثابت کرتے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں کے عظیم امام شافی اپنی کتاب الرسالہ میں اس کے بارے میں لکھتے ہیں۔
ہذا مما کلف العباد أن يعقلوہ ويعملوہ ويعطوہ من أنفسہم وأموالہم وأن يکفوا عنہ ما حرم عليہ منہ وہذا الصنف کلہ من العلم موجودا نصا في کتاب اللہ وموجودا عاما عند أہل الاسلام ينقلہ عوامہم عن من مضی من عوامہم يحکونہ عن رسول اللہ ولا يتنازعون في حکايتہ ولا وجود بہ عليہم وہذا العلم العام الذي لا يمکن فيہ الغلط من الخبر ولا التأويل ولا يجوز فيہ التنازع (1/358)
اس کا مفہوم درج ذیل ہے:
یہ وہ احکام ہیں جنہیں سمجھنا، ان پر عمل کرنا، اپنے جان و مال کے ذریعے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا اور حرام کئے گئے کاموں سے بچنا ہر شخص پر لازم ہے۔ یہ تمام احکام اللہ کی کتاب، واضح نص میں بیان کئے گئے ہیں اور مسلمانوں میں ان پر عام طور پر عمل کیا جاتا ہے۔ لوگ انہیں نسل در نسل منتقل کرتے ہیں اور یہ سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے چلا آرہا ہے۔ ان احکام کے منتقل کرنے یا ان کی فرضیت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ وہ علم ہے جس سے متعلق معلومات اور اس کی تشریح ہر طرح کی غلطیوں سے پاک ہے۔ اس میں کسی قسم کا اختلاف کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

اس کا آخری جملہ پھر پڑھیے کہ کس طرح یہ علم ہر غلطی اور اختلاف سے پاک ہے۔ پھر یہی بات ایک علم حدیث کے ایک اور بہت بڑے امام حافظ ابن عبد البر(463ھ) اپنی کتاب جامع بیان العلم و فضلہ میں اس طرح لکھتے ہیں:
علم کی دو بنیادیں ہیں۔ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ سنت کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جسے تمام لوگ تمام لوگوں تک (نقل کافہ عن کافہ) منتقل کرتے ہیں۔ یہ وہ حجت قاطع ہے جس میں کسی قسم کا اختلاف ثابت نہیں اور اس کا انکار نصوص الہی کے انکار کے مترادف ہے ۔‘‘، (ص 625)

دین کی تاریخی حجیت ثابت کرنے کا یہ وہ طریقہ تھا جو ہمارے متقدمین نے اختیار کیا تھا۔ اس طریقے میں دینی تعلیمات وہ مسلمہ بن جاتی ہیں، جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت ایک ناقابل انکار حقیقت بن جاتی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دنیا کے کسی دوسرے دین کو حاصل نہیں۔ یہ بات واضح رہے کہ مسلمانوں نے اس کے علاوہ اپنے نبی کے قول، علم اور تقریر کی حفاظت کا بھی حتی الوسع بہت اہتمام کیا ہے۔ یہ بڑا قیمتی اور اہم ذخیرہ ہے جس کے ذریعے سے دین کو سمجھنے، عمل کرنے اور نئے پیش آنے والے مسائل میں اجتہاد کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ لیکن ہم اسے یہاں اس لیے زیر بحث نہیں لائے کہ یہ ذخیرہ ہم مسلمانوں کے نزدیک تو حجت بن سکتا ہے، غیرمسلموں کے لیے تاریخی حجت اگر کوئی چیز بن سکتی ہے تو وہی تواتر کے ساتھ ملا ہوا دین ہے اور جس کا انکار کرنا علم تاریخ کی بنیاد پر ناممکن ہے۔

خلاصہ بحث
یہ بحث ذرا طویل ہوگئی، مگر یہ اتنی غیر معمولی اہمیت کی بات ہے کہ اسے پوری طرح سمجھنا ضروری ہے۔ ایک ایسے دور میں جب انٹرنیٹ کی وجہ سے جب غیر مسلموں کے تمام اعتراضات ہمارے گھر گھر میں پہنچ رہے ہیں، ہم پر لازم ہے کہ اپنے دین کی حقانیت کے دلائل علم کے ان مسلمات کی بنیاد پر لوگوں کے سامنے پیش کریں جن کا انکار کرنا ممکن نہیں۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپا لینا یا پھر کمزور جگہ سے اسلام کا دفاع کرنا ایک خطرناک رجحان ہے۔ اس طرح ہم اپنے دین کا مقدمہ خود کمزور کر دیں گے۔