Take a fresh look at your lifestyle.

شرک کی خرابی ۔ ابویحییٰ

سوال: السلام علیکم۔
سر امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ یوٹیوب پر میں نے ایک غیر مسلم کو ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ایک سوال پوچھتے ہوئے سنا کہ آپ مسلمانوں کا خدا اپنے ساتھ شریک کرنے کو بہت بڑا جرم اور گناہ قرار دیتا ہے۔ اگر ہم انسانوں کو دیکھیں تو ہم کم ظرف ہیں لیکن خدا تو بہت اعلیٰ ظرف کا مالک ہے تو خدا اپنے ساتھ کیوں کسی کو برداشت نہیں کرتا۔ ہم انسان جیلس ہوسکتے ہیں۔ کیا نعوذ باللہ خدا کا بھی یہ معاملہ ہے حالانکہ وہ تو بڑا رؤف و رحیم ہے۔ اس معاملے میں اس کا غضب کیوں؟ شاہزیب عبدالستار

جواب:السلام علیکم۔ امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔
یہ معاملے کو سمجھنے کی درست تعبیر نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ معاذاللہ جلن جیسے انسانی جذبے کا شکار ہوکر شرک کی مذمت کرتے ہیں اور اس وجہ سے شرک کے حوالے سے اتنے سخت ہیں۔ شرک ایک ایسی برائی ہے جو اپنے اندر دس طرح کے اخلاقی مسائل رکھتی ہے۔ اصول یہ ہے کہ اخلاقی طور پر ناپاک انسان جنت میں نہیں جاسکتا۔ اسی پس منظر میں قرآن مجید میں شرک کی مذمت آئی ہے اور اس سے سختی سے روکا گیا ہے۔

اب یہ سمجھ لیں کہ شرک میں کس طرح کے اخلاقی مسائل ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ جب ہم غیراللہ کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں تو یہ ایک بدترین جھوٹ ہی نہیں بلکہ خدا کی تصغیر کا عمل بھی ہے۔ یہ خدا کو مخلوق جیسا قرار دینا ہے۔ ایک عظیم ہستی کو معمولی ہستی سے ملانا ہے۔ قادر مطلق کو عاجز مطلق بنانا ہے۔ چنانچہ شرک بیک وقت جھوٹ، بہتان، گستاخی اور خدا کی توہین کرنے کا عمل ہے۔ چنانچہ شرک کرکے ایک انسان بیک وقت جھوٹا، بہتان طراز اور گستاخ بن جاتا ہے۔ ایسا انسان کس اخلاقی پیمانے پر ایک اعلیٰ انسان سمجھا جاسکتا ہے؟

دوسری بات یہ ہے کہ جب کوئی شخص شرک کرتا ہے تو پھر وہ خدا کے سارے حقوق کا رخ غیراللہ کی طرف موڑ دیتا ہے۔ وہ اسی سے محبت کرتا ہے، اس کی تعریف کرتا ہے، اس کی عبادت کرتا ہے، اسی سے مدد مانگتا ہے، اسی کے حضور نذر چڑھاتا ہے۔ اس کی زبان پر اسی غیر کا نام رہتا ہے۔ اس پہلو سے شرک کرنا بدترین حق تلفی بھی ہے۔ یہ خدا کا حق دوسروں کو دینے کے مترادف ہے۔ یاد رہے کہ خدا وہ ہستی ہے جو انسان کو سب کچھ دیتا ہے۔ اس کی زندگی، اسباب زندگی، رشتے ناتے، مال دولت، صحت و عافیت غرض ہر چیز انسانوں کو خدا دیتا ہے اور اس کے سوا کوئی نہیں دیتا۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو یہ احسان فراموشی بھی ہے۔

اب ایک طرف خدا کی ان عنایات کا تصور کریں اور دوسری طرف یہ دیکھیں کہ جواب میں شرک کرکے انسان کیا کر رہا ہے۔ اس عمل کی شناعت کو سمجھنے کے لیے ذرا کسی ایسے انسان کا تصور کیجیے جو اپنے باپ پر جھوٹ بولے، بہتان لگائے، اس کی توہین کرے۔ پھر باپ کو چھوڑ کر دوسروں کی خدمت کرے، ان پر پیسہ خرچ کرے اور انھی کی تعظیم کرے۔ ایسے شخص کو آپ اخلاقی میزان پر کس جگہ رکھیں گے؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ باپ سے ہزار گنا بڑھ کر خدا انسانوں پر احسان کرتا ہے۔ چنانچہ انسان کی یہی احسان فراموشی ہے جو شرک کو ایک بہت بڑا جرم بنا دیتی ہے۔

چنانچہ شرک کی خرابی یہ نہیں کہ انسان خدا کو کوئی نقصان پہنچاتا ہے۔ اصل خرابی یہ ہے کہ شرک کرکے انسان اپنے متعلق یہ ثابت کر دیتا ہے کہ وہ اخلاقیات کے میزان عدل میں ایک مجرم ہے جس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ شرک کی مذمت انسان کو اس انجام سے بچانے کے لیے کی گئی ہے، اس لیے نہیں کہ شرک سے خدا کو کوئی ذاتی مسئلہ ہوجاتا ہے۔ شرک تو اپنے ساتھ کی گئی زیادتی ہے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ کسی عذر کی بنا پر معاف کر دیں اور اس کے وجود کو ختم کر دیں تب بھی یہ شخص اس جرم کا ارتکاب کرکے جنت جیسی نعمت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگیا۔ یہ ظلم ایک مشرک خود اپنے اوپر کرتا ہے نہ کہ کسی اور پر۔

اس لیے عزیزم! اللہ تعالیٰ کو شرک کا کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ خدا کی ہستی بہت بلند ہے۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسے پوجا جاتا ہے یا نہیں یا اس کو تنہا مانا جاتا ہے یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی جلن جیسے ہر جذبے سے بلند اور پاک ہے۔ شرک اپنی ذات میں ایک غیر اخلاقی عمل ہے جو جھوٹ، بہتان، حق تلفی اور احسان فراموشی جیسے رزائل اخلاق سے عبارت ہے اور نتیجے کے طور پر انسان خود کو عظیم نقصان پہنچائے گا۔ اسی لیے قرآن مجید سمیت ساری آسمانی کتابوں اور تمام انبیا نے شرک کے خلاف اصل مورچہ لگایا ہے اور اس سے انسانیت کوبچانے کی زبردست جدوجہد کی ہے۔

والسلام
بندہ عاجز
ابویحییٰ