Take a fresh look at your lifestyle.

شیر، درخت اور شکار ۔ ابویحییٰ

میں ہمیشہ لوگوں کو مثبت انداز فکر اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہوں۔ بدترین حالات میں بھی کوئی نہ کوئی مثبت اور امید افزا بات لوگوں کے سامنے رکھنا میری عادت ہے۔ پچھلے دنوں ایک عزیز دوست نے میری اس عادت پر مجھے اردو کے ایک بڑے مزاح نگار کا مثبت انداز فکر پر تبصرہ اس طرح سنایا کہ جنگل میں ایک شخص کے پیچھے شیر لگ گیا۔ وہ شخص جان بچانے کے لیے دیوانہ وار بھاگا اور ایک درخت پر چڑھ گیا۔ اس کے پیچھے پیچھے شیر آیا اور اسے درخت پر چڑھا دیکھ کر غصے سے دھاڑنے لگا۔ اب ایسے میں وہ شخص ارد گرد کے خوبصورت مناظر دیکھ کر ان سے لطف اندوز ہونے لگے تو یہ مثبت انداز فکر کی ایک مثال ہے۔

میں یہ بات سن کر بہت محظوظ ہوا۔ پھر ان کی تصحیح کرتے ہوئے عرض کی کہ مثبت انداز فکر یہ نہیں کہ انسان شیر کی موجودگی میں درخت سے اردگرد کے دلکش نظارے دیکھ کر لطف انداز ہو۔ درحقیقت مثبت انداز فکر اس بات کو دیکھنا ہے کہ آپ کے پیچھے شیر لگا تھا، چیتا نہیں۔ چیتا اتنا تیز رفتار ہوتا ہے کہ وہ آپ کو درخت تک پہنچنے ہی نہیں دیتا۔ کسی طرح آپ درخت پر چڑھ بھی جاتے تو وہ شیر کی طرح نیچے کھڑے ہو کر دھاڑنے کے بجائے درخت کے اوپر چڑھ کر آپ کو چیر پھاڑ دیتا۔ اس ضمن کی آخری بات یہ ہے کہ بھوکا شیر زیادہ دیر وہاں نہیں بیٹھ سکتا۔ وہ جلد یا بدیر کسی اورشکار کی تلاش میں نکل جائے گا۔ جس کے بعد جان بچانے کا پورا موقع مل جائے گا۔

میرا یہ جواب ایک لطیف بات کا لطیف جواب ہی نہیں درحقیقت اس بات کی وضاحت بھی ہے کہ مثبت انداز فکر درحقیقت کیا ہوتا ہے۔ مثبت انداز فکر اپنے مسائل کو بھول کر بے فکری کے ساتھ جینے کا نام نہیں۔ اسی طرح یہ بےحس ہو جانے یا ہر مشکل کو نظر انداز کر کے اچھی امیدیں رکھنے کا نام بھی نہیں۔ مثبت انداز فکر دراصل گہرے غور وفکر اور تجزیے کے بعد ان مثبت حقیقتوں کو دریافت کر لینے کا نام ہوتا ہے جو بظاہر ہمیں نظر نہیں آتیں، لیکن وہ اگر نہ ہوں تو ہمارے حالات بد سے بدترین کی طرف گامزن ہوتے چلے جائیں۔

مثال کے طور پر جو لوگ غربت اور تنگ دستی کے ہاتھوں پریشانی کا شکار ہوتے ہیں، وہ اپنے حالات کا دکھڑا روتے رہتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ زندگی، صحت، اعضا کی سلامتی وغیرہ وہ نعمتیں ہیں جو الحمدللہ ابھی بھی ان کے پاس موجود ہیں۔ وہ اپنے منفی انداز فکر کی بنا پر پریشان ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ان کی صحت بھی متاثر ہونے لگتی ہے۔ غربت کے ساتھ جب بیماری گھر میں داخل ہو جائے تو مالی بحران سنگین سے سنگین ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کے برعکس یہ لوگ پریشانی کے بجائے جو ملا ہے اس پر قناعت کی راہ اختیار کرتے تو اپنی صحت ہاتھ سے نہ گنواتے۔ مزید یہ کہ وہ منفی حالات کا رونا روتے رہنے کے بجائے اِن ہی حالات میں موجود امکانات کو استعمال کرکے مالی ترقی کے مواقع پیدا کرسکتے تھے۔ میں اس بات کو مختصراً اس طرح بیان کرتا ہوں کہ آنکھیں مواقع دیکھنے کے لیے ہوتی ہیں مسائل پر آنسو بہانے کے لیے نہیں۔ جو شخص اپنے حالات پر رو رہا ہو، اس کے آنسو اس کی آنکھوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑتے کہ وہ ارد گرد کچھ دیکھ سکے۔ اس کے لیے حوصلہ کرکے صبر کرنا پڑتا ہے۔ پھر آنکھیں ترقی کے مواقع دیکھتی اور مسائل کے باوجود ملے ہوئے امکانات کو تلاش کرلیتی ہیں۔

یہی معاملہ اجتماعی معاملات کا ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھیے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ جنرل مشرف کی پالیسیوں اور اقتدار سے بہت نالاں تھے۔ وہ جنرل صاحب کی پالیسیوں پر روتے رہے مگر یہ نہیں دیکھ سکے کہ جنرل صاحب کے دور میں ملک کے معاشی معاملات بہت بہتر تھے۔ بعد میں جو حکومت آئی اس نے نہ صرف جنرل صاحب کی پالیسیوں کو جاری رکھا بلکہ معاشی طورپر بھی ملک کا بیڑا غرق کردیا۔

آج بھی ہمارے برے حالات میں خیر کے کئی پہلو تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت ہے اوراب پانچ سال بعد یہ موقع آچکا ہے کہ لوگ اگر حکومت سے نالاں ہیں تو وہ تبدیلی کے لیے اٹھیں۔ خود بھی گھر سے نکلیں، دوسروں کو بھی ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے نکالیں اور حکومت بدل دیں۔ بندوق اٹھانے اور احتجاج میں مار کھا کر حکومت بدلوانے کی کوشش کرنے کے مقابلے میں یہ تبدیلی کا بہت آسان طریقہ ہے جو آج بھی موجود ہے۔

لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی محفلوں اور فیس بک کے صفحات میں دل کی بھڑاس نکالتے رہیں اور معاشرے میں تبدیلی خود بخود آجائے گی تو یہ منفی انداز فکر ہے۔ منفی انداز فکر کی تعریف ہی یہی ہے کہ یہ منفی چیزوں کو دیکھتے رہنے اور موقع ملنے پر بھی اپنی جگہ سے نہ ہلنے کا نام ہے۔ شروع میں بیان کیے گئے واقعے میں اس کی تمثیل یہ ہے کہ شیر کے جانے کے بعد بھی وہ آدمی درخت پر چڑھا رہے اور کسی محفوظ جگہ پر جانے کی کوشش نہ کرے۔

جبکہ مثبت انداز فکر بدترین حالات میں موجود امکانات کو تلاش کرنا اور موقع ملنے پر انہیں استعمال کرنے کا نام ہے۔ ہماری قوم اور خاص کر ہمارے نوجوانوں کو یہ کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر انفرادی زندگی میں کوئی خیر آسکتا ہے نہ اجتماعی زندگی میں۔ منفی انداز فکر موت ہے جو جلد یا بدیر ہمیں حالات کا شکار بنا دے گا۔