Take a fresh look at your lifestyle.

مشکلات میں جینے کا فن 7 ۔ پروفیسر عقیل

اصول نمبر7۔ قانون اوسط سے مدد لیجیے
کیس اسٹڈی:
چند دوست آپس میں اپنے اپنے خدشات اور خوف کا اظہار کر رہے تھے۔ ایک دوست نے کہا۔ مجھے آسمانی بجلی سے بہت ڈر لگتا ہے۔ جب بجلی کڑکتی ہے تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ مجھ پر ہی گرے گی”۔
ایک اور دوست بولا:
"یار مجھے تو فائرنگ سے بہت خوف آتا ہے۔ کراچی شہر کا کچھ پتا نہیں کب نامعلوم سمت سے آنے والی گولی ہمیں چاٹ جائے۔ میں اس خوف کی بنا پر باہر بہت کم نکلتا ہوں اور اکثر پریشان رہتا ہوں۔ اس خوف کے سبب میں اپنی نیند بھی پوری نہیں کرپا رہا۔”
تیسرا دوست جو بڑی دیر سے اپنی بات کو ضبط کیا ہوا تھا بول پڑا۔”بھئی مجھے تو گھر سے دفتر نکلنے کے بعد دن بھر یہی خیال ستاتا رہتا ہے کہ کہیں میرا چھوٹا بیٹا سیڑھیوں سے تو نہیں گر گیا؟ کہیں میں استری جلتی ہوئی تو چھوڑ کر نہیں آگیا؟ کہیں میری بیوی کی طبیعت تو خراب نہیں ہوگئی؟ انہی خدشات کے پیش نظر میں بار بار گھر فون کرتا اور خیریت معلوم کرتا رہتا ہوں لیکن کچھ دیر بعد پھر کوئی وسوسہ دل میں آکر سکون غارت کرجاتا ہے”۔
آخری دوست بھی نچلا نہ بیٹھا اور اپنے خوف کو بیان کرنے لگا۔”بھائیو! میرا مسئلہ کچھ مختلف ہے لیکن نوعیت کے اعتبار سے وہی ہے۔ مجھے مختلف قسم کے امراض کا خوف رہتا ہے۔ کبھی یوں لگتا ہے کہ ڈینگی ہوگیا ہے اور میں راتوں میں اٹھ کر اپنے بدن پر سرخ دھبے تلاش کرتا ہوں، کبھی مجھے وضو کرتے وقت نیگلیریا کا خوف ہوتا ہے، کبھی میں کانگو وائرس کی علامات اپنے اندر تلاش کرتا ہوں تو کبھی ہارٹ اٹیک کا وسوسہ میرے شب و روز کا سکون غارت کئے دیتا ہے۔ میں ڈاکٹر کے پاس چکر لگا لگا کر تنگ آ گیا ہوں اور ڈاکٹر بھی مجھ سے نالاں ہے۔ اب سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں”۔
قریب ہی ایک بزرگ ان دوستوں کی باتیں سن رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس اس کا علاج ہے۔ سب دوستوں نے اچانک پلٹ کر انہیں دیکھا اور علاج دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا علاج  ہے کہ قانون اوسط سے مدد لو۔

وضاحت:
ہمارے خارجی اور داخلی ماحول میں بے شمار خدشات اور خطرات موجود ہوتے ہیں۔ ان خطرات میں زلزلے، سیلاب، طوفان، روڈ ایکسیڈنٹ، فائرنگ، ہارٹ اٹیک، ڈینگی، کینسر، معذوری اور اس نوعیت کے دیگر معاملات شامل ہوتے ہیں۔  مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان خطرات کو ایک حد تک ہی قابو کر سکتے اور ان سے ایک حد تک ہی بچ سکتے ہیں۔ باقی زندگی ہمیں انہی کے ساتھ رہ کر گذارنی ہے۔ اب ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم ہر وقت ان کے بارے میں سوچ سوچ کر اپنی زندگی اجیرن بنا لیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانون اوسط اور قانون امکانات سے کام لیں۔

قانون اوسط یہ بیان کرتا ہے کہ ہمارے کسی مصیبت یا حادثے کے شکار ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آسمانی بجلی ساڑھے تین لاکھ میں سے کسی ایک فرد پر ہی گرتی ہے، کینسر میں ہر آٹھ میں سے ایک شخص ہی ہلاک ہوتا ہے۔ فائرنگ سے کروڑوں کے شہر میں دس یا بارہ افراد ہی ہلاک ہوتے ہیں۔ ڈینگی مچھر اتنی بڑی آبادی میں محض چند درجن لوگوں ہی کو متاثر کر پاتا ہے وغیرہ۔ جب آپ اس قانون سے کام لیں گے تو آپ کو علم ہو گا کہ آپ پر کسی بیماری، جرثومہ یا آفت کے حملے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے چنانچہ آپ پرسکون رہیں، حفاظتی تدابیر اختیار کریں، اللہ سے دعا کریں، اللہ پر توکل کریں، اور نتائج سے بے پروا ہو کر اپنا کام خاموشی سے کرتے رہیں۔

اس پر ایک اعتراض یہ وارد ہو سکتا ہے کہ ممکن ہے آج گولی مجھے ہی لگ جائے یا ڈینگی سے متاثر ہونے کی باری میری ہی ہو یا آج حادثہ میرے ہی ساتھ ہو جائے۔ اب کیا کیا جائے؟ اس مشکل کے تین حل ہیں۔ پہلا حل تو یہ کہ ہم تمام گولی مارنے والے لوگوں کو ختم کر دیں یا تمام ڈینگی ہلاک کر دیں یا تمام حادثات رونما ہونے کے امکانات ختم کر دیں اور جب تک ایسا نہ کر لیں چین سے نہ بیٹھیں۔ اگر آپ اس آپشن پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کیجئے لیکن ایک نارمل آدمی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ایسا کرنا ناممکن ہے۔ دوسرا حل یہ ہے کہ ہم ہجرت کر کے کسی ایسی جگہ چلیں جائیں جہاں یہ سب کچھ نہ ہوتا ہو۔ اگر ایسا کرنے سے آپ کا مسئلہ حل ہو سکتا ہو تو ضرور ایسا کریں۔ لازمی سی بات ہے کہ دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں یہ سب کچھ نہ ہوتا ہو۔ ہاں اس کے امکانات کم ہو سکتے ہیں اور جونہی آپ امکانات کی بات کرتے ہیں تو آپ دوبارہ قانون اوسط پر آجاتے ہیں۔ نیز ہجرت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ چنانچہ جب تک آپ کسی پرسکون جگہ تک نہیں پہنچ جاتے آپ کو ان مشکلات کو برداشت کرنا اور ان کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔ تیسرا حل ان مشکلات کے ساتھ زندہ رہنا اور وہی قانون اوسط سے مدد لینا ہے۔ اور یہی اس کا حل ہے۔

اسائینمنٹ
۔ ان خدشات اور خوف کی نشاندہی کریں جو آپ کو تنگ کرتے ہیں۔
۔ خوف کا جائزہ لیں کہ وہ حقیقی ہیں یا غیرحقیقی۔ اگر غیرحقیقی اور وہم ہیں تو اسے یکسر نظر انداز کر دیں۔
۔ ان کے بارے میں ڈیٹا اکھٹا کریں کہ اس کے کتنے امکانات ہیں کہ وہ حادثہ آپ کے ساتھ وقوع پذیر ہوسکے۔
۔ اس حادثے سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر نوٹ کریں اور انہیں اختیار کریں۔
۔ اللہ سے دعا کریں اور پھر اس پر کامل بھروسہ کر لیں کہ وہ آپ کو اس مشکل سے بچائے گا۔
۔ ان اقدام کے بعد کسی وہم میں مبتلا نہ ہوں اور اپنا کام کرتے رہیں۔