Take a fresh look at your lifestyle.

مشکلات میں جینے کا فن 1 ۔ پروفیسر عقیل

مشکلات میں جینے کا فن (1)
پروفیسر محمد عقیل

تعارف
اگر آپ کو شدید بخار ہو تو دنیا کی تمام نعمتیں آپ کے لئے بے معنی ہوجاتی ہیں۔ بہترین سے بہترین کھانا بے لذت اور مشروب بدذائقہ لگنے لگتا ہے۔ ارد گرد کے حسین مناظر بدنما لگتے، پرکشش آسائشیں بے معنی ہوجاتیں اور تمام دلچسپیوں سے بےزاری ہو جاتی ہے۔ اگر بخار کا مناسب علاج نہ کیا جائے تو اس سے کئی مزید جسمانی اور نفسیاتی بیماریاں جنم لیتی ہیں جو آپ کو آہستہ آہستہ موت کے دہانے تک بھی لے جا سکتی ہیں۔

بالکل یہی معاملہ نفسیاتی بیماریوں کا ہے۔ اگر آپ کسی شدید ذہنی پریشانی کا شکار ہوجائیں تو کم و بیش یہی نتائج نکلتے ہیں۔ آپ ٹینشن کے باعث کھانے پینے کی خواہش میں کمی محسوس کرتے، سکون سے محروم ہوجاتے، خوشیوں کو نظر انداز کرتے اور مایوسی و ناامیدی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس ذہنی بیماری کے نتیجے میں کئی جسمانی اور نفسیاتی بیماریاں حملہ آور ہوتی رہتی ہیں جن کا بروقت تدارک نہ کیا جائے تو نتیجہ یا تو ایک انتہائی تکلیف دہ زندگی کی صورت میں نکلتا ہے یا پھر اس کا انجام ایک تکلیف دہ موت ہے۔

آج کے دور میں لوگ بالعموم بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ غیر ترقی یافتہ ممالک میں بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی ، لوٹ مار، قتل وغارت گری اور اس طرح کے دیگر مسائل نے لوگوں کا جینا محال کردیا ہے۔ دوسری جانب ترقی یافتہ ملکوں کے شہری بے راہ روی، خاندان کی ٹوٹ پھوٹ، معاشی خوف، بےمقصدیت اور کئی نفسیاتی عوارض سے پریشان ہیں۔ ان پریشانیوں میں نوجوان اور بوڑھا، امیر اور غریب، مزدور و آجر، پڑھا لکھا اور جاہل، عورت اور مرد سب مبتلا ہیں۔ ان میں سے ہر شخص اپنی پریشانیوں سے نجات حاصل کرکے ایک صحت مند شخص بننا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس میں سکون، اعتماد، پرامیدی اور امنگ پیدا ہو۔ وہ بھی شوگر، ہارٹ، السر، تیزابیت، سر کا درد، بلڈ پریشر، گٹھیا اور تھائی رائیڈ جیسی کئی ممکنہ جسمانی بیماریوں سے دور رہے۔ وہ بھی نفرت، غصہ، ٹینشن، بےچینی و گھبراہٹ، خوف، تکان اور دیگر نفسیاتی و ذہنی امراض سے نجات حاصل کرے۔ وہ بھی صبح کی تازگی کو انجوائے کرے، رات کی تاریکی سے لطف اٹھائے، پرندوں کی نغمگی سے مسحور ہو اور نیند کی حسین وادی میں کھو جائے۔

ایک پرسکون اور پریشانیوں سے مبرا شخصیت کو صرف یہ دنیاوی فائدے ہی نہیں ملتے بلکہ اس سے اس کی اخروی زندگی بھی پروان چڑھتی ہے۔ ایک نفسیاتی طور پر مضبوط شخص اپنے رب کے احکامات سے روگردانی نہیں کرتا، وہ مضبوط قوت ارادی سے عبادات اور معاملات میں پابندی برقرار رکھتا، نفس کی ناجائز خواہشات کا قلع قمع کرتا اور شیطان کی چالاکیوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے۔

اس ماہ سے ہم رسالے میں ایک سلسلے کا آغاز کررہے ہیں۔ اس کا مقصد آپ کو پریشانیوں سے نجات فراہم کرکے ایک پرسکون، خوشیوں اور توانائی سے بھرپور زندگی سے روشناس کرانا ہے۔ ہماری اس تحریر کی بنیاد ڈیل کارنیگی کی شہرہ آفاق کتاب ”پریشان ہونا چھوڑئیے اور جینا شروع کریں“ پر رکھی گئی ہے۔ اس کتاب کا اصل نام ہے:
”How to stop worrying and start living“
اس کتاب میں ڈیل کارنیگی نے پرسکون زندگی کے کچھ اصول بیان کئے ہیں۔ اس تحریر میں انہی اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے ہم آپ کو راہنمائی فراہم کریں گے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ہم ہر اصول پر قسط وار آرٹیکلز اور کیس اسٹڈی شائع کریں گے۔ ان مضامین میں آپ کو پریشانیوں سے نجات کے اصول اپنانے کا طریقہ کار اور مشقیں بتائی جائیں گی۔ چنانچہ آپ سے گذارش ہے کہ ان مختصر مضامین اور کیسز کو غور سے پڑھیں بلکہ دو سے تین مرتبہ پڑھیں۔ پھر ان میں بیان کردہ اصولوں پر عمل درآمد کریں۔

اصول نمبر۱۔ آج کے لئے زندہ رہیں
کیس اسٹڈی
’’احمد چھٹی کی وجہ سے صبح دیر سے سو کر اٹھا۔ باہر نکلا تو موسم بہت سہانا تھا۔ ہلکی ہلکی بارش درخت کے پتوں کو غسل دے رہی تھی۔ مٹی سے اٹھنے والی مہک نے فضا کو مسحور کردیا تھا، بادلوں کی گھن گرج ایک موسیقی بکھیرے دے رہی تھی۔ احمد کو یوں محسوس ہوا کہ گویا وہ جنت میں ہو۔ اسے بہت اطمینان محسوس ہونے لگا۔ وہ مناظر میں اتنا گم ہوا کہ اپنے سارے غم بھلا بیٹھا۔ وہ اسی شوق و مستی کے عالم میں ایک گھنٹے تک بیٹھا رہا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ کل اس کی دفتر میں ایک اہم میٹنگ ہے، اگر اس میٹنگ میں بات بن گئی تو ایک بہت بڑا کانٹریکٹ مل جائے گا۔ وہ میٹنگ کی تیاری مکمل کرچکا تھا۔ لیکن اس کا خیال آتے ہی موسم کا مزا کرکرا ہوگیا اور وہ آنے والے کل کے اندیشوں میں گرفتار ہوگیا۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ روح بہک گئی اور اسے یہ بھی یاد آیا کہ کل اس کے باس نے کس طرح اس کی بےعزتی کی تھی۔ یہ سوچ کر اس کا خون کھولنے لگا۔ موسم اتنا ہی خوبصورت تھا، مناظر اتنے ہی حسین تھے لیکن احمد ماضی کے پچھتاوے اور مستقبل کے اندیشے میں اتنا گرفتار ہوا کہ آج کو بھول گیا‘‘۔

وضاحت:
پریشانیوں سے نجات کا پہلا اصول یہ ہے کہ آج میں زندہ رہیں کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ آنے والا کل ایک سراب ہے اور گذرا ہوا کل ماضی کی داستان۔ خود کو ایک ایسے کمرے میں بند محسوس کریں جس کا کوئی دروازہ، کوئی کھڑکی نہیں۔ یہ کمرہ آج کا کمرہ ہے۔ اس کمرے کے آگے مستقبل کے اندیشے ہیں اور پیچھے ماضی کے پچھتاوے۔ دونوں طرح کے کل کو نظر انداز کرکے محض آج میں زندہ رہیں۔اس سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھیں یا مستقبل کے مسائل سے نبٹنے کی تیاری نہ کریں۔ یہ دونوں کام ضروری ہیں۔ آج میں زندہ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے کل یا گذرے ہوئے کل کیلئے کسی قسم کا کوئی تردد، فکر، تشویش، پریشانی، بےچینی اور اضطراب کا مظاہرہ نہ کریں۔

ایک فلسفی کا قول ہے:
’’آپ آنے والے کل کے لئے غیر ضروری طور پر پریشان نہ ہوں۔ آنے والا کل اپنا خود بندوبست کرے گا۔ آپ محض اپنے آج کی فکر کریں اور اسی جانب توجہ مبذول رکھیں‘‘۔

اگرمستقبل کا جائزہ لیا جائے تو عام طور پر دو طرح کی فکریں اور اندیشے ہوتے ہیں۔ ایک قسم تو ان مسائل کی ہے جن کے بارے میں ہم آج تیاری کرسکتے اور ان کا تدارک کر سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر روزگار کا حصول، بہتر مستقبل، اچھا معیار زندگی، اچھی صحت کا حصول وغیرہ۔ دوسری قسم ان فکروں کی ہے جن کے لئے ہم آج کچھ بھی نہیں کرسکتے اور ان کا حل یا تو اس وقت ممکن ہوگا جب یہ مسئلے درپیش آئیں گے یا پھران کا تدارک تقدیر کے ہاتھ میں ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کی بیٹیاں ہیں لیکن وہ ابھی کم عمر ہیں۔ چنانچہ بیٹیوں کے لئے اچھے رشتوں کے لئے آج تشویش میں مبتلا ہونا بے وقوفی ہے۔ مستقبل کے غیر ضروری اندیشوں سے نجات کا ایک بہترین راستہ توکل ہے۔ توکل کا مطلب ہے کہ اپنے کرنے کا کام مکمل کرکے باقی کام اور نتائج  الله کے سپرد کردینا۔

اسی طرح ماضی کے غم بھی دو اقسام کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن سے ہم سبق سیکھ کر کچھ بہتری لاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک طالب علم امتحان میں محنت نہ کرنے کے سبب فیل ہوگیا۔ اب اسے چاہیے کہ ماضی سے سبق سیکھ کر آئندہ محنت کرے۔ دوسرے وہ رنج و الم ہوتے ہیں جن سے ہم کوئی سبق حاصل نہیں کرسکتے اور یہ ہماری یادوں میں کانٹوں کی مانند موجود رہتے اور وقتاً فوقتاً کچوکے لگاتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص کا بچہ فوت ہوگیا۔ اب یہ خیال اسے بار بار تنگ کرتا رہتا ہے۔ اس خیال سے چھٹکارا ہی خوشحال زندگی کا ضامن ہے۔

اسائنمنٹ:
۱۔ کیس کو دوبارہ پڑھئیے اور تحریر کریں کہ احمد کے آنے والے کل اور گذرے ہوئے کل کی پریشانیوں کی کیا نوعیت تھی۔
۲۔ آپ کو مستقبل کے بارے میں جو پریشانیاں لاحق ہیں ان کی ایک لسٹ بنائیں اور ہر ایک کے سامنے یہ لکھیں کہ یہ قابل حل ہے یا نہیں۔ اگر وہ قابل حل ہے تو حل تجویز کرکے اسے بھلا دیں اور ناقابل حل ہے تو ابھی سے بھلا دیں۔
۳۔ ماضی کے پچھتاووں کی ایک فہرست بنائیں اور دیکھیں کہ ان میں سے ہر ایک سے کیا سبق سیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد سب پچھتاووں کو بھلا دیں۔
۴۔ آج پر غور کریں اور ان نعمتوں کی فہرست بنائیں جو آپ کو آج حاصل ہیں جیسے صحت، دولت ، عزت، تعلیم وغیرہ۔ پھر ان نعمتوں سے محظوظ ہوں اور الله کا شکر ادا کریں۔