Take a fresh look at your lifestyle.

مشکلات میں جینے کا فن 8 ۔ پروفیسر عقیل

اصول نمبر8۔ اٹل حقیقت کو تسلیم کرلیں
کیس اسٹڈی:
وہ آج بہت خوش تھا اور خوش کیوں نہ ہوتا۔ آج اسے برسوں پرانے سپنے کی تعبیر مل گئی تھی۔ وہ خوشی سے سرشار اپنے گھر میں داخل ہوا اور اپنی ماں سے لپٹ گیا۔
"امی! میں کامیاب ہو گیا۔ مجھے ائیر فورس میں پائلٹ کے طور پر منتخب کر لیا گیا ہے”۔
ماں اس کی بلائیں لینے لگی اور دعا دینے لگی۔ وہ ماں کو یہ خوشخبری دینے کے بعد بے چینی سے صبح کا انتظار کرنے لگا تاکہ جلد از جلد رپورٹ کر کے اپنی ڈیوٹی جوائن کرسکے ۔ ابھی مغرب ہی ہوئی تھی اور اسے پوری رات کاٹنی تھی۔ اس نے سوچا کہ کل دفتر جانے کے لیے کچھ اچھے کپڑے خرید لے۔ چنانچہ وہ ایک دوست کے ساتھ بازار گیا اور شاپنگ میں مصروف ہو گیا۔ ابھی وہ دوکاندار سے بھاو تاو میں مصروف ہی تھا کہ اس کے کانوں میں ایک شدید دھماکے کی آواز آئی۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ چھت اس کے سر پر گر گئی ہو۔ پھر اس کا دماغ تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا۔

جب ہوش آیا تو ابتدا میں کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ جب غور سے دیکھا تو علم ہوا کہ وہ اسپتال میں ہے۔ اس نے گھبرا کر اٹھنے کی کوشش کی تو درد کی ٹیسوں نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹروں کی ایک ٹیم داخل ہوئی۔ ان کے ساتھ  اس کی ماں بھی تھی جس کی آنکھیں رونے کے باعث سوجھ چکی تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتا، ایک ڈاکٹر اس سے مخاطب ہوا۔
"مسٹر وقاص! آپ بازار میں ایک بلاسٹ کا شکار ہوگئے تھے۔ اس میں کئی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ آپ بچ گئے ہیں۔ لیکن ایک بری خبر یہ ہے کہ بلاسٹ میں آپ کی دونوں ٹانگیں ضائع ہو چکی ہیں”۔

وقاص کے لیے یہ دھماکہ پہلے والے بلاسٹ سے شدید تر تھا۔ وقاص کی دنیا ویران ہو چکی تھی۔ دن گذرتے گئے لیکن وقاص مایوسی اور پژمردگی میں کوئی کمی نہ ہوئی۔ اس کا وجود ایک زندہ لاش کی مانند تھا۔ وہ اکثر سوچتا کہ مر کیوں نہیں گیا۔ لیکن اس قسم کی سوچوں سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے بڑھنے لگا۔ وہ ایک دن اسی مایوسی کے عالم میں کتاب کے صفحات پلٹ رہا تھا کہ ایک دعائیہ جملے نے اس کی توجہ مبذول کر لی۔ وہ بار بار ڈاکٹر ربن ہولڈ  کے اس جملے کو پڑ ھنے لگا۔
” اے اللہ! مجھے اتنی عقل عطا فرما کہ میں ان حالات سے سمجھوتہ کر لوں جنہیں بدلنے پر میں قدرت نہیں رکھتا”۔

اس جملے نے اس کی زندگی بدل دی۔ اس نے سوچ لیا کہ یہ ٹانگیں واپس نہیں آسکتیں اور نہ ہی اسے پائلٹ کی نوکری دوبارہ مل سکتی ہے۔ لیکن دنیا دو ٹانگوں اور پائلٹ کی ملازمت پر ہی ختم نہیں ہوجاتی۔ چنانچہ اس نے ایک گھر کے قریب ایک کالج جوائن کر لیا اور درس و تدریس میں مشغول ہو گیا۔ آج کئی برس بعد اس کی بیوی بھی ہے اور بچے بھی۔ وہ اپنے بچوں کو خوش و خرم لہجے میں یہی درس دیتا ہے کہ "جس حقیقت سے فرار ممکن نہیں اس حقیقت کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرو”۔

وضاحت:
زندگی میں ہمیں دو طرح کی ناخوشگوار حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک وہ معاملات ہیں جنہیں ہم بدلنے پر قادر ہیں جیسے بیمار ہونے پر دوائی کھانا۔ دوسری جانب وہ امور ہیں جو ناخوشگوار تو ہیں لیکن ہم انہیں بدلنے پر قادر نہیں۔ ان کے ساتھ سمجھوتہ ہی عقل مندی ہے۔ مثال کے طور پر معذوری، بدصورتی، کسی عزیز کی موت، کوئی مالی محرومی، کسی قیمتی شے کا کھو جانا وغیرہ۔ ان تمام معاملات میں اگر کوئی شخص خود کو ایڈجسٹ نہ کر پائے تو زندگی مشکل تر ہوجاتی بلکہ جہنم بن جاتی ہے۔ ان کے ساتھ سمجھوتہ کر کے آگے کی طرف دیکھنا اور مثبت زندگی کا آغاز کرنا ہی واحد چارہ ہوتا ہے۔ ایلسی میک کارمک کا کہنا ہے کہ جب ہم کسی ناگزیر صورت حال سے جنگ کرنا ترک کر دیتے اور اسے قبول کر لیتے ہیں تو ہم وہ توانائی حاصل کر لیتے ہیں جو ایک کامیاب اور بھرپور زندگی کے لیے ضروری ہے۔

لیکن اس ضمن میں عام طور پر افراط و تفریط ہو جاتی ہے۔ چنانچہ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ آیا یہ حقیقت بدلی جا سکتی ہے یا نہیں۔ نیز کیا اس واقعہ کا  ذمہ دار فرد خود ہے یا حالات۔ مثال کے طور پر ایک طالب علم امتحان میں ناکام ہو جاتا ہے۔ اب یہ تو ایک حقیقت ہے کہ اسے یہ فیصلہ قبول کرنا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے ان اسباب کو بھی تلاش کرنا ہے جن کی بنا پر وہ ناکام ہوا۔ اگر وہ اس ناکامی کو اٹل حقیقت سمجھ کر بیٹھ جائے تو بے وقوفی ہوگی۔ بالکل ایسے ہی اگر کوئی شخص بیمار ہے تو آخری حد تک اس بیماری سے لڑے گا کیونکہ یہ ایک اٹل اور ناقابل تبدیل حقیقت نہیں بلکہ اس صورت حال پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اٹل حقیقت کو اٹل سمجھنے کا فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

اسائنمنٹ:
۔ ان حقائق کی فہرست بنائیے جو آپ کے لیے ناخوشگوار ہیں لیکن اٹل ہیں یعنی تبدیل نہیں ہو سکتے۔
۔ اٹل حقیقتوں کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کے لیے آپ کیا لائحہ عمل تیار کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔