Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (87) شریعت کے مطالبات ۔ ابویحییٰ

عصر حاضر اور شریعت
قرآن مجید کی تعلیمات اور اس میں بیان کردہ مضامین میں سے ایک بہت اہم اور تفصیلی حصہ وہ ہے جس کا تعلق شریعت سے ہے۔ تاہم انیسویں صدی کے دورِ الحاد میں جب مادہ کو آخری اور ازلی حقیقت سمجھا گیا تھا، مادہ کی سطح سے بلند تر اور ظاہری حواس کے دائرے سے باہر موجود غیبی حقائق کا اثبات اور ان پر ایمان ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا تھا۔ چنانچہ بہت سے مسلمان اہل علم نے یہ راستہ اختیار کیا تھا کہ ان غیبی حقائق کا یا تو انکار کر دیا جائے یا پھر ان کی کوئی توجیہ و تاویل کرکے انھیں مادی دائر ے میں لایا جائے جہاں وہ اس دور کی عقلیت کے معیار پر قابل قبول ہوجائیں۔ یہ راستہ ایک طرف خود مسلمانوں کے اجتماعی شعور نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تو دوسری طرف سائنس کے ارتقا نے اس طرح کے کسی چیلنج کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہنے دی ہے۔ بیسویں صدی کی سائنس نے حواس کی گرفت میں آنے والی مادی دنیا سے بلند تر حقائق کا اعتراف کرلیا ہے۔ اسی طرح حواس کی گرفت میں نہ آنے والے حقائق کے اثبات کے لیے بالواسطہ استدلال کو قابل قبول مان لیا گیا ہے۔ جس کے بعد ایمانیات کے لیے پیدا ہونے والا یہ چیلنج خود ہی ختم ہوگیا۔

بیسویں صدی میں ایسا ہی چیلنج شریعت کو پیش آیا ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ دورجدید میں انسانی علم و فکر، تہذیب و تمدن، انفرادی اور اجتماعی شعور، سماجی اقدار وروایات اور معروف و منکر کے معیارات میں اس درجہ تبدیلی آئی ہے کہ نہ صرف فقہ اسلامی بلکہ قرآن مجید میں موجود کئی احکام کے قابل عمل اور قابل قبول ہونے کے بارے میں سنجیدہ سوالات پیدا ہوگئے۔ چنانچہ مسلم اہل علم کی طرف سے اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے چند راستے تجویز کیے گئے۔ ایک یہ کہ حکمران یا پارلیمنٹ اجتہاد کرکے شریعت کے کسی بھی حکم کو معطل قرار دے سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ شریعت کے پیچھے موجود مقاصد کو سامنے رکھ کر ان شرعی ضابطوں کی جگہ نئے قابل عمل اور قابل قبول قوانین بنائے جائیں اور یہ بھی شریعت کے منشا کے عین مطابق ہوگا۔ تیسرا یہ کہ جس طرح سینٹ پال نے شریعت کو صرف یہود کے ساتھ خاص کرکے باقی لوگوں کو اس کی پابندی سے آزاد کر دیا تھا، اسی طرح اسلامی شریعت کو بھی عرب اور خاص طور پر اسلام کے ابتدائی مخاطبین تک محدود سمجھا جائے۔ نئے زمانے میں لوگ اپنی مرضی کے مطابق قانون سازی کرلیں۔

قرآن مجید اور شریعت کی اہمیت
تاہم قرآن مجید شریعت کی اہمیت کو جس زور اور شان کے ساتھ بیان کرتا ہے، اس کی روشنی میں مذکورہ بالا کسی بھی حل کو قبول کرنا ممکن نہیں۔ قرآن مجید کے بنیادی مطالبات میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قوانین کے معاملے میں سمع و طاعت کا رویہ اختیار کیا جائے۔ قرآن مجید اس پورے معاملے کو کس طرح دیکھتا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے چند آیات درج ذیل ہیں۔

”اور اپنے اوپر اللہ کی اِس نعمت کو یاد رکھو اور اُس کے اُس عہد و میثاق کو بھی جو اُس نے تم سے ٹھیرایا تھا، جب تم نے کہا کہ ہم نے سن لیا اور ہم فرماں بردار ہیں، (اِسے یاد رکھو) اور اللہ سے ڈرو، اِس لیے کہ اللہ دلوں کے بھید تک جانتا ہے۔“،(المائدہ 7:5)

”یہ اللہ کی ٹھیرائی ہوئی حدیں ہیں،(ان کا لحاظ کرو) اور(یاد رکھو کہ) جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کریں گے، انھیں وہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کریں گے اور اس کی ٹھیرائی ہوئی حدوں سے آگے بڑھیں گے، انھیں وہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کے لیے رسوا کردینے والی سزا ہے“، (النساء13-14:4)

”اور جو اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی کافر ہیں…… وہی ظالم ہیں“،(المائدہ5: 44-45)

”ان اہل کتاب سے لڑو جو نہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں، نہ اللہ اور اس کے رسول کے حرام ٹھیرائے ہوئے کو حرام ٹھیراتے ہیں اور نہ دین حق کو اپنا دین بناتے ہیں۔“،(التوبہ29:9)۔

ان آیات میں قرآن مجید نے واضح طور پر یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک شریعت اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت اور وہ عہد و میثاق ہے جس کی اطاعت کے مسلمان پابند ہیں۔ اسی طرح ان میں قوانین کو حدود الٰہی قرار دے کر ان کی پاسداری پر جنت کی خوشخبری اور پامالی پر جہنم کی وعید دی گئی ہے۔ اس شریعت کو پاکر اس کے مطابق فیصلے نہ کرنے والوں کو کافر اور ظالم کہا گیا ہے۔ شریعت کی حرمتوں کو حرمت جان کر ان کی پابندی کرنا، ایمان لانے اور دین اسلام کو اختیار کرنے جیسے بنیادی مطالبات کی طرح اہم ہے جس کا انکار باقی دو چیزوں کے انکار جیسا ہے۔ حضور کی بعثت کے جو مقاصد قرآن مجید میں چار جگہ بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ایک یہی ہے کہ حضور اہل ایمان کو قانون الٰہی یعنی شریعت کو سکھانے کے لیے مبعوث ہوئے ہیں۔

زاویہ فراہی کی خدمات
اس ضمن میں امام فراہی، ان کے تلمیذ رشید مولانا امین احسن اصلاحی اور ان کے تلمیذ رشید استاذ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی کا کام اس پہلو سے ایک انتہائی غیرمعمولی کام ہے کہ انھوں نے شریعت کے خلاف جنم لینے والے اس چیلنج کا بہت موثر جواب دیا ہے۔ اس جواب کی بنیادی اساسات درج ذیل ہیں۔
۔ فقہ شریعت سے ایک جدا چیز ہے۔ شریعت خدا کا نازل کردہ مقدس قانون ہے جو قیامت تک کے لیے قابل عمل بھی ہے اور اس پر عمل مطلوب بھی۔ فقہ بعد کے زمانوں میں پیدا ہونے والا دین کا فہم ہے جس میں ہوسکتا ہے کہ بہت کچھ ٹھیک ہو اور بہت کچھ غلط۔ اس میں جو کچھ غلط ہے، اس کی کوئی ذمہ داری اسلام پر نہیں۔ دور جدید میں زیادہ تر اعتراض جن چیزوں پر ہوتا ہے وہ اسی انسانی فہم کے نتائج ہیں نہ کہ شارع کے اپنے مطالبات۔ مثال کے طور پر حدود کے مقدمات جیسے قتل، زنا، چوری وغیرہ میں عورتوں کی گواہی کا بالکل قابل قبول نہ ہونا کوئی شرعی مطالبہ نہیں۔ یہ دین کا انسانی فہم تھا جو پہلے چل گیا، مگر آج نہیں چل سکتا۔ مگر یہ ہرگز کوئی دینی مطالبہ نہیں تھا۔
۔ دین کے کچھ احکام اولین مخاطبین کے لیے تھے یہ احکام زیادہ تر وہی ہیں جن کا تعلق اس عدالت سے تھا جو رسولوں کی کسی قوم میں بعثت کے بعد برپا ہوجاتی ہے۔ مثلاً حضور کے مخاطب بنی اسماعیل کے لیے ایمان نہ لانے کی شکل میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ مگر حضور کے زمانے میں تمام بنی اسماعیل ایمان لے آئے تھے۔ انھی کے بارے میں حضور نے یہ ہدایت کی تھی کہ جو لوگ ایمان لانے کے بعد پھر دوبارہ اپنا دین بدل ڈالیں انھیں قتل کردیا جائے۔چنانچہ ارتداد کی دنیوی سزا جو کہ موت ہے، وہ انھی لوگوں کے لیے تھی، اس کا بعد میں آنے والے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔

بعض احکام تدبیر کی نوعیت کے ہوتے ہیں جس میں رہنمائی تمدن اور حالات کے لحاظ سے کی جاتی ہے تاکہ فساد اور خرابی سے بچا جاسکے۔ اس کی مثال قرض کی دستاویز کو لکھنا اور اس پر دومردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنانا۔ تمدن اگر کسی بہتر سہولت یا تدبیر کو مہیا کر دے تو اس کا اختیار کرنا ترک شریعت کے زمرے میں نہیں آئے گا۔

مذکورہ بالا زمروں کے علاوہ باقی تمام احکام شریعت کے ابدی قوانین ہیں۔ ان میں سے ہر حکم تمام زمانوں میں قابل عمل ہے اور اسے اختیار کرنے سے عملی طور پر کوئی خرابی نہیں آتی۔ دور جدید میں اگر اس پر کوئی اعتراض کرتا ہے تو ہر معقول پیمانے پر اس کا دفاع کیا جاسکتا ہے۔ ان احکام میں رعایت کی اساسات قرآن مجید نے خود مقرر کر دی ہیں جو دو ہیں یعنی عسر و تنگی اور اضطرار و اکراہ۔ عسر عبادات کا اصول ہے۔ یعنی جب کسی عبادت کو اپنی اصل شکل میں ادا کرنا مشکل ہوجائے تو متبادل یا علامتی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ وضو کی جگہ تیمم کا علامتی حکم اس کی ایک مثال ہے۔

اضطرار و اکراہ باقی دینی احکام سے متعلق ہیں۔ یعنی جب انسان بالکل مجبور ہوجائے جس میں جان جانے کا اندیشہ ہو تو دین کی حرمتیں اٹھ جاتی ہیں۔ جیسے موت سے بچنے کے لیے حرام غذا کھائی جاسکتی ہے یا جان بچانے کے لیے کلمہ کفر زبان سے نکالا جاسکتا ہے۔

جاوید احمد صاحب غامدی کی کتاب ”میزان“ میں فقہ سے جدا قرآن وسنت میں بیان کردہ یہ شریعت نہ صرف پوری صراحت سے بیان کر دی گئی ہے بلکہ تمام احکام کی نوعیت بھی ساتھ میں واضح کر دی گئی ہے۔ شریعت کے باب میں جو کچھ قرآنی آیات ہیں وہ سب کی سب میزان میں مختلف قوانین کے ذیل میں زیر بحث آگئی ہیں۔