Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (85) شخصی رویے : حق کا انکار اور اعتراف کرنے والی نفسیات ۔ ابویحییٰ

قرآن مجید کا حق اور انسان کی نفسیات
قرآن مجید جگہ جگہ اپنا یہ وصف بیان کرتا ہے کہ یہ حق اور سچ کے طور پر نازل ہوا ہے اور جو باتیں اس میں بیان کی گئی ہیں وہ سراپا حق ہیں۔ غیب کی دنیا کے بارے میں جو کچھ قرآن مجید میں ایمانیات کی شکل میں بیان کیا گیا ہے نہ صرف ان کا حق اور یقینی ہونا ایک مسلمہ ہے بلکہ انسانوں کے پاس اس حق کو پانے کا کوئی دوسرا مستند ذریعہ بھی نہیں ہے۔ قرآن مجید نے ان حقائق کا نہ صرف کھل کر اور تفصیل کے ساتھ ابلاغ کیا ہے بلکہ ان کے اثبات کے لیے عقل و فطرت، انفس و ا ٓفاق اور تاریخ کے وہ تفصیلی دلائل بھی دیے ہیں جن کا انکار کرنا کسی سلیم الفطرت انسان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ قرآن مجید نے اپنے پیش کرنے والی ہستی کی سچائی اور قرآن کے منزل من اللہ ہونے کے بھی متعدد دلائل دیے ہیں جو اس بات کو مکمل طور پر ثابت کر دیتے ہیں کہ قرآن مجید خدا کی ذات حق کا نازل کیا ہوا کلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں۔ ان تمام چیزوں پر ہم اس کتاب میں ”دلائل“ کے عنوان سے تفصیلی بحث کر چکے ہیں۔

قرآن مجید کی یہ معقول دعوت نہ صرف انسانوں کے فطری سوالات کے مکمل جوابات بھی دیتی ہے بلکہ ان کو وہ واضح راستہ بھی دکھاتی ہے جو آخرت میں ان کی مکمل فلاح کی ضامن ہے۔اس کے بعد قرآن کے مخاطبین کے سامنے دو ہی انتخاب ہیں۔ ایک یہ کہ وہ حق پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرآن مجید کی دعوت کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں اور ایمان و یقین کا راستہ اختیار کریں۔ دوسرا یہ کہ وہ اعتراف حق کے بجائے انکار، اعتراض، مخالفت، حجت بازی، نکتہ آفرینی، عناد، نفاق اور اعراض جیسے رویے اختیار کریں۔ قرآن مجید کے ابتدائی مخاطبین نے یہ دونوں رویے اختیار کیے اور قرآن مجید نے ان دونوں کو موضوع بحث بنایا۔ خاص کر انکار کرنے والوں کی نفسیات کے بہت سے گوشے قرآن مجید میں تفصیل سے زیر بحث آئے جن سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جب انسان حق کا انکار کرنے کا فیصلہ کرلے تو پھراس کی نفسیات کے کون کون سے پہلو اس انکار کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور کون کون سے شخصی رویے اس انکار سے پھوٹتے ہیں۔ تاہم ان کی تفصیل سے قبل ہم اختصار سے یہ بتائیں گے کہ حق کو قبول کرنے والے لوگوں کی نفسیات قرآن مجید میں کس طرح زیر بحث آئی ہے۔

اعتراف حق کی نفسیات
اعتراف حق کی نفسیات کا بنیادی جو ہر یہ ہوتا ہے کہ انسان کسی نئی اور مختلف بات کو جو اس کے تعصبات، جذبات اور روایات کے خلاف ہو سننے پر آمادہ ہوجائے۔ قرآن مجید اسے قبول حق کی طرف پہلے قدم کے طور پر بیان کرتا ہے۔ انسان اگر کسی سچائی کو بالکل یہ سننے ہی سے انکار کر دے تو وہ دلائل کا جائزہ لینے اور صحیح و غلط میں تمیز کرنے کے قابل ہی نہیں رہتا۔ انسان اگر کسی معقول بات کو سننے پر آمادہ ہوجائے تو پھر اس کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے کہ وہ عام حالات میں اس کا انکار کرے گا۔ اعتراف حق کا دوسرا قدم کسی بات کو سننا اور اس پر غور و فکر کرنا ہے۔ یہ غور و فکر اگر آزادانہ اور غیرجانبدارانہ ہو تو انسان اکثر سچائی کو پالیتا ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ کسی شخص کے تعصبات اس کی طبیعت میں اتنے راسخ ہوں کہ پہلے مرحلے پر کسی سچائی کو قبول نہ کرے۔ لیکن اگر وہ غور کرتا رہے گا تو ایک روز اس کی فطرت اور عقل اس پر یہ حقیقت کھول دیں گے کہ یہ ایک سچائی ہے جس کا ماننا اس کے انسان ہونے کا تقاضا ہے۔

سچائی کے مسلسل سامنے ہونے کے باوجود بھی اس بات امکان ہوتا ہے کہ کوئی انسان جو طبعاً صالح اور حق پرست ہو؛ وہ اپنے پس منظر، زاویہ نظر، سابقہ اعتقادات اور تصورات کی بنا پر اپنے ذہن کے بند دریچوں کو کھولنے میں ناکام رہے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب اللہ کے رسول اپنی سچائی کی نشانیاں لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ نشانیاں یا معجزات جب ظاہر ہوتی ہیں تو ایسے تمام لوگوں کے پاس سچائی کے اعتراف کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ ایسے لوگ سچائی کے اس طرح سامنے آنے پر فرعون کے دربار میں موجود جادوگروں کی طرح فوراً حق کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور اپنی سابقہ غلطی کا کھل کر اقرار کرلیتے ہیں۔ اس کی ایک دوسری مثال ملکہ سبا کی ہے جو کہ اپنے پس منظر کی بنا پر ابتدا میں حضرت سلیمان کو صرف ایک بادشاہ سمجھی، مگر ان کے کمال کی نشانیاں دیکھنے کے بعد یہ جان گئی کہ وہ محض ایک بادشاہ نہیں بلکہ خدائی بادشاہی کا زمینی نشان ہیں اور فوراً اعتراف حق کرلیا۔

حق کو سننے سے لے کر اسے ماننے تک کے پورے عمل میں یہ بات خارج از امکان نہیں ہوتی کہ ذہن کوئی سوال نہ کرے اور دل میں کوئی اشکال سر نہ ابھارے۔ قرآن مجید ایسے ہر سوال کا جواب دیتا اور ہر اشکال کو رفع کرتا ہے، بلکہ حضرت آدم کی خلافت کے وقت فرشتوں کی طرف سے اٹھائے گئے سوال کا ذکر کرکے یہ حقیقت واضح کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رویے پر ناراض نہیں ہوتے بلکہ اطمینان بخش جواب دیتے ہیں۔ یہی معاملہ حضرت ابراہیم کا تھا جن کے اطمینان قلب کے لیے قیامت کے دن مردوں کو زندہ کرنے کا عمل ان کو اسی دنیا میں کرکے دکھایا گیا۔ تاہم اس طرح کے سوالات سائل کی ذمہ داری کو بہت بڑھا دیتے ہیں۔ خاص کر اگر وہ عقلی سوالات سے زیادہ خارق العادت نوعیت کے مطالبات ہوں۔ حضرت عیسیٰ کے حواریوں کے آسمان سے دسترخوان اتارنے کے مطالبے پر یہ تنبیہ صراحت کے ساتھ کر دی گئی تھی کہ اس کے بعد کفر کی صورت میں وہ عذاب آئے گا جو کسی پر نہیں آیا۔ اس لیے سوالات کو دین کی دعوت کی تفہیم تک محدود رہنا چاہیے۔ خارق العادت نوعیت کے مطالبات کی نہ پیغمبروں کے سامنے حوصلہ افزائی کی گئی نہ بعد میں اس طرح کے مطالبات اللہ تعالیٰ سے کرنے چاہئیں۔

قبول حق کی نفسیات کا جو آخری اہم پہلو قرآن مجید میں سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ اعتراف حق کے بعد اس پر استقامت ضروری ہے۔ یہ استقامت حالات کی سختیوں کے مقابلے میں بھی ہونی چاہیے اور خواہشات کے مقابلے میں بھی ہونی چاہیے۔ ہاں جو عملی کوتاہی ہوجائے، اس کے بعد توبہ اور رجوع کا موقع ختم نہیں ہوتا اور غلطی کا اعتراف انسان کو ایک دفعہ پھر راہِ خدا پر چلنے کا موقع فراہم کر دیتا ہے۔ انسان غلطی کا یہ اعتراف کبھی خود کرلیتا ہے اور کبھی کسی دوسرے کے توجہ دلانے پر اپنی اس غلطی پر متنبہ ہوجاتا ہے جس پر پہلے اس کا ذہن منتقل نہیں ہوا ہوتا۔

انکار حق کی نفسیات
جو لوگ حق کے انکار کا راستہ اختیار کرتے ہیں، ان کی نفسیات کے متعدد پہلو قرآن مجید میں تفصیل کے ساتھ زیر بحث آئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے تو وہ ہیں جو اوپر بیان کردہ اوصاف کے بالکل متضاد ہیں۔ مثلاً بات سننے کے بجائے کانوں کو بند کرلینا۔ دلائل پر غور و فکر کے بجائے اپنی آنکھوں کو حقائق کے دیکھنے اور دل کو ان پر غور و فکر کے لیے بند کرلینا۔ قرآن مجید اس رویے کی وجوہات بھی تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ قریش کی طرح اس کی وجہ آبا و اجداد کی حمیت بھی ہوتی ہے اور گروہی عصبیت بھی۔ اہل کتاب کی طرح خواہش نفس کو معبود بنا لینا بھی اس کا سبب ہوتا ہے اور اپنے علما و درویشوں کو معبود کا درجہ دینا بھی۔ شیطان کی طرح سامنے والے کے مقابلے میں اپنی فضیلت و برتری کا احساس بھی اس کا باعث ہوتا ہے اور یہود کی طرح کبر و حسد کے جذبات بھی انسان کو اس راہ سے روک دیتے ہیں۔

ان تمام وجوہات کی بنا پر جب کوئی فرد یا گروہ حق کے انکار کا فیصلہ کر دیتا ہے تو پھر ایک خاص طرح کا رویہ وجود میں آتا ہے۔ اس رویے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ سچائی کا انکار کرکے ایک اخلاقی برائی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی اس اخلاقی برائی کو چھپانے کے لیے اور خود کو حق پرست ثابت کرنے لیے اس رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس رویے میں سوال کے بجائے بے جا اعتراض، نکتہ آفرینی اور غیرمتعلق گفتگو ہوتی ہے۔ اس میں سچائی کو غیر موثر کرنے کے لیے حق کے مقابلے میں شکوک و شبہات اور الجھنوں کا اظہار ہوتا ہے۔ دلیل اور دعوت کے جواب میں حجت بازی، اعراض، پیٹھ پھیر لینا، تمسخر و استہزا، ضد و ہٹ دھرمی، اندھی مخالفت، دشمنی اور مکر و فریب کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ کبھی سچائی کا انکار ممکن نہ ہو تو حیلہ بازی، عذر تراشی، منافقت کو اپنی روش بنا لیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ خود بھی اللہ کے راستے سے رکتے ہیں، دوسروں کو بھی ہر ممکن طریقے سے اس راہ سے روکتے ہیں۔ وہ نشانیوں کا مطالبہ آگے بڑھ کر کرتے ہیں اور نشانیاں سامنے آنے پر سب سے پہلے ان کا انکار کر دیتے ہیں۔ وہ اپنے کان ہی بند نہیں کرتے بلکہ دل سے یقین کرنے کے بعد بھی دعوت حق کا انکار کر دیتے ہیں۔ کوئی مصیبت آجائے تو یہ لوگ اپنی غلطی کا اقرار کرکے اصلاح کا عزم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، مگر جیسے ہی حالات بہتر ہوں فوراً اپنی پرانی روش پر لوٹ جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی کشتی پھر بھرکے ڈوبتی ہے اور اس سے پہلے ان کو ڈھیل دے دی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ خدا کی پکڑ آجاتی ہے اور ایسے لوگ اپنے انکار حق کا نتیجہ بھگت لیتے ہیں۔

قرآنی بیانات
”اِس میں شبہ نہیں کہ یہ ایک یقینی حق ہے۔“،(الحاقہ51:69)

”سو قسم ہے آسمان و زمین کے پروردگار کی، اُس کا آنا یقیناً حق ہے اُسی طرح، جیسے تم بول دیتے ہو۔“،(الذاریات23:51)

”وہ تم سے پوچھتے ہیں: کیا یہ واقعی سچ ہے؟ کہہ دو، ہاں، میرے پروردگار کی قسم، یہ شدنی ہے اور تم خدا کو عاجز نہیں کرسکتے۔“،(یونس53:10)

”وہ جس بدلے کے مستحق ہیں، اُس دن اللہ اُنھیں پورا دے دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی حق ہے، وہ تمام حقائق کو کھول دینے والا ہے۔“،(النور25:24)

”یہ جو بات کو توجہ سے سنتے، پھر اُس کے بہتر کی پیروی کرتے ہیں۔ یہی ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی اور یہی ہیں جو عقل والے ہیں۔“،(الزمر18:39)

”اور وہ کہیں گے: اگر ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اِن دوزخ والوں میں نہ ہوتے۔“، (الملک10:67)

”سو کیا یہ قرآن پر غور نہیں کرتے یا دلوں پر اُن کے تالے چڑھے ہوئے ہیں؟“، (محمد24:47)

”اِس کے برخلاف جن لوگوں نے اقرار کیا کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر (تمام مخالفتوں سے بے پروا ہو کر) اُس پر ثابت قدم رہے، (اُن کی تسلی کے لیے قیامت کے دن، اِس سے پہلے کہ فیصلہ ہو)، اُن پر یقیناً فرشتے نازل ہوں گے اور کہیں گے کہ اب نہ کوئی اندیشہ کرو، نہ غم اور اُس جنت کی خوش خبری قبول کرو، جس کا وعدہ تم سے کیا جاتا تھا۔“،(حم سجدہ30:41)

”(اِن سے پوچھو، اے پیغمبر کہ یہ منکر کس طرح ہوتے ہیں)؟ اور (اِس دنیا کے بارے میں ہماری اسکیم کو سمجھنے کے لیے) وہ واقعہ اِنھیں سناؤ، جب تمھارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک ایسی مخلوق بنانے والا ہوں جسے (اُس کی) بادشاہی دی جائے گی۔ اُنھوں نے عرض کیا: کیا آپ اُس میں وہ مخلوق بنائیں گے جو وہاں فساد کرے گی اور خون بہائے گی، اور اِدھر ہمارا معاملہ یہ ہے کہ آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ ہم آپ کی تسبیح و تقدیس کر رہے ہیں؟ فرمایا: میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔“،(البقرہ30:2)

”اور (اِس سلسلے میں) وہ واقعہ بھی پیش نظر رہے، جب ابراہیم نے کہا تھا کہ پروردگار، مجھے دکھا دیں کہ آپ مردوں کو کس طرح زندہ کریں گے؟ فرمایا: کیا تم ایمان نہیں رکھتے؟ عرض کیا: ایمان تو رکھتا ہوں، لیکن خواہش ہے کہ میرا دل پوری طرح مطمئن ہو جائے۔ فرمایا: اچھا، تو چار پرندے لو، پھر اُن کو اپنے ساتھ ہلا لو، پھر (اُن کو ذبح کر کے) ہر پہاڑی پر اُن میں سے ایک ایک کو رکھ دو، پھر اُنھیں پکارو، وہ (زندہ ہو کر) دوڑتے ہوئے تمھارے پاس آجائیں گے، اور(آیندہ کے لیے) خوب سمجھ لو کہ اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔“، (البقرہ260:2)

”اور جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو کچھ اتارا ہے، اُس کی طرف آؤ اور اللہ کے رسول کی طرف آؤ تو کہتے ہیں کہ ہمارے لیے وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا اُس صورت میں بھی جب کہ اُن کے باپ دادا کچھ نہ جانتے ہوں اور نہ راہ ہدایت پر رہے ہوں؟“،(المائدہ104:5)

”ایمان والو، ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمھیں گراں ہوں، اور ایسے وقت میں کہ قرآن نازل ہو رہا ہے، تم اُنھیں پوچھو گے تو وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں گی۔ (اِس وقت تو) یہ چیزیں اللہ نے معاف کر دی ہیں اور اللہ بخشنے والا ہے، وہ بڑا بردبار ہے۔
تم سے پہلے ایک قوم نے اِسی طرح کی باتیں پوچھیں، پھر اُنھی کے منکر ہو کر رہ گئے تھے۔“،(المائدہ101-102:5)

”تم سے رخصت مانگنے تو وہی آتے ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور جن کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں، سو اپنے اِسی شک میں حیران بھٹک رہے ہیں۔“، (التوبہ 45:9)

”اللہ کے سوا اُنھوں نے اپنے فقیہوں اور راہبوں کو رب بنا ڈالا ہے اور مسیح ابن مریم کو بھی۔ درآں حالیکہ اُنھیں ایک ہی معبود کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا، اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہ پاک ہے اُن چیزوں سے جنھیں وہ شریک ٹھیراتے ہیں۔“،(التوبہ 31:9)

”اِس پر عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی: اے اللہ، اے ہمارے پروردگار، تو ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر دے جو ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے ایک یادگار بن جائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو۔ (پروردگار)، ہم کوعطا فرما اور تو بہترین عطا فرمانے والا ہے۔
اللہ نے فرمایا: میں اِس کو تم پر ضرور نازل کر دوں گا، مگر اِس کے بعد جو تم میں سے منکر ہوں گے، اُنھیں ایسی سخت سزا دوں گا جو دنیا میں کسی کو نہ دی ہوگی۔“،(المائدہ114-115:5)

”تم نے اُس شخص کو دیکھا ہے، (اے پیغمبر)، جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے؟ پھر کیا تم اُس کا ذمہ لے سکتے ہو؟“،(الفرقان43:25)

”یہ اِس سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی اِس سے گریز کر جاتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اپنی ہی تباہی کا سامان کر رہے ہیں، مگر اِس کا احساس نہیں کرتے۔“،(الانعام26:6)

”اور اِسی طرح اُن لوگوں نے بھی کہا ہے جو (کتاب الٰہی کا) علم نہیں رکھتے کہ اللہ ہم سے (براہ راست) کیوں ہم کلام نہیں ہوتا یا ہمارے پاس کوئی واضح نشانی کیوں نہیں آتی؟ بالکل اِسی طرح جو اِن سے پہلے گزرے ہیں، اُنھوں نے بھی اِنھی کی سی بات کہی تھی۔ اِن سب کے دل ایک سے ہیں۔ ہم نے اپنی نشانیاں اُن لوگوں کے لیے جو یقین کرنا چاہیں، ہر لحاظ سے واضح کر دی ہیں، (لہٰذا تمھاری کوئی ذمہ داری نہیں کہ اِن کی خواہش کے مطابق اِنھیں معجزے اور نشانیاں دکھاؤ)۔“،(البقرہ118:2)

”داؤد نے کہا: اِس نے تمھاری دنبی کو اپنی دنبیوں میں ملانے کا مطالبہ کر کے یقیناً تم پر ظلم کیا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ معاملے کے اکثر شریک اِسی طرح ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں۔ اِس سے وہی بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور اچھے عمل کرتے ہیں اور ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں۔ اُس وقت داؤد کو خیال ہوا کہ یہ تو ہم نے اُس کا امتحان کیا ہے۔ چنانچہ اُس نے اپنے پروردگار سے معافی چاہی اور اُس کے حضور جھک کر سجدے میں گر گیا اور (پورے دل سے اُس کی طرف) رجوع ہوا۔“،(ص24:38)

”پھر اگر وہ اُس طرح مانیں، جس طرح تم نے مانا ہے تو راہ یاب ہوئے اور اگر منہ پھیر لیں تو وہی ضد پر ہیں۔ سو اِن کے مقابلے میں، (اے پیغمبر)، اللہ تمھارے لیے کافی ہے، اور وہ سننے والا ہے، ہر چیز سے واقف ہے۔“،(البقرہ137:2)

”کیا ہی بری ہے وہ چیز جس کے بدلے میں اِنھوں نے اپنے آپ کو بیچ دیا کہ محض اِس بات کی ضدمیں کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اپنا فضل اتارے، یہ اُس چیز کا انکار کر دیں جو اللہ نے اتاری ہے۔ سو یہ غضب پر غضب کما لائے اور (دنیا اور آخرت میں) اِن منکروں کے لیے (اب) بڑی ذلت کا عذاب ہے۔“،(البقرہ90:2)

”(اپنی منافقت کے لیے یہ اختلافات کو بہانہ بناتے ہیں۔ اِنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) لوگ ایک ہی امت تھے۔ پھر(اُن میں اختلاف پیدا ہوا تو) اللہ نے نبی بھیجے، بشارت دیتے اور انذار کرتے ہوئے اور اُن کے ساتھ قول فیصل کی صورت میں اپنی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان وہ اُن کے اختلافات کا فیصلہ کر دے۔ یہ جن کو دی گئی، اِس میں اختلاف بھی اُنھی لوگوں نے کیا، نہایت واضح دلائل کے اُن کے سامنے آجانے کے بعد، محض آپس کے ضدم ضدا کی وجہ سے۔ پھر یہ جو (قرآن کے) ماننے والے ہیں، اللہ نے اپنی توفیق سے اُس حق کے بارے میں اِن کی رہنمائی کی جس میں یہ اختلاف کر رہے تھے۔ اور اللہ جس کو چاہتا ہے، (اپنے قانون کے مطابق) سیدھی راہ کی ہدایت عطا فرماتا ہے۔“،(البقرہ213:2)

”اُس نے کہا: وہ فرماتا ہے کہ وہ گائے محنت والی نہ ہو کہ زمین جوتتی اور فصلوں کو پانی دیتی ہو۔ وہ ایک ہی رنگ کی ہو، اُس میں کسی دوسرے رنگ کی آمیزش نہ ہو۔ بولے: اب تم واضح بات لائے ہو۔ اِس طرح اُنھوں نے اُس کو ذبح کیا اور لگتا نہ تھا کہ وہ یہ کریں گے۔“، (البقرہ71:2)

”یہ اہل کتاب تم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ (اِس قرآن کے بجائے) اِن پر براہ راست آسمان سے ایک کتاب اتار لاؤ۔ سو اِس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے، اِنھوں نے موسیٰ سے اِس سے بھی بڑا مطالبہ کیا تھا۔ اِنھوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ہمیں خدا کو سامنے دکھاؤ تو اِن کی اِس سرکشی کے باعث اِن کو کڑک نے آلیا تھا۔ پھر اِنھوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا، اِس کے بعد کہ اِن کے پاس کھلی کھلی نشانیاں آچکی تھیں۔ اِس پر بھی ہم نے اِس سے درگذر کیا اور موسیٰ کو (اِن پر) صریح غلبہ عطا فرمایا تھا۔“،(النساء153:4)

”(یہ بات، البتہ واضح رہنی چاہیے کہ) اللہ پر توبہ قبول کرنے کی ذمہ داری اُنھی لوگوں کے لیے ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی گناہ کر بیٹھتے ہیں، پھر جلدی ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ سو وہی ہیں جن پر اللہ عنایت کرتا اور اُن کی توبہ قبول فرماتا ہے اور اللہ علیم وحکیم ہے۔
اِس کے برخلاف اُن لوگوں کے لیے کوئی توبہ نہیں ہے جو گناہ کیے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب اُن میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آجاتا ہے، اُس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کر لی ہے۔ اِسی طرح اُن کے لیے بھی توبہ نہیں ہے جو مرتے دم تک منکر ہی رہیں۔ یہیتو ہیں جن کے لیے ہم نے دردناک سزا تیار کر رکھی ہے۔“،(النساء17-18:4)

”تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو کتاب سے بہرہ یاب ہوئے، اُنھیں اللہ کی کتاب ہی کی طرف بلایا جارہا ہے کہ اُن کے درمیان (اختلافات کا) فیصلہ کر دے۔ پھر دیکھا نہیں کہ اُنھی میں سے ایک گروہ اُس سے منہ پھیر لیتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ منہ پھیر لینے والے لوگ ہی ہیں۔“،(آل عمران23:3)

”(یہ ہوا) اور بنی اسرائیل نے (اُس کے خلاف) خفیہ تدبیریں کرنا شروع کیں، اور اللہ نے بھی (اِس کے جواب میں) خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے۔“،(آل عمران54:3)

”اِن سے پوچھو، اے اہل کتاب، تم اُن لوگوں کو اللہ کے راستے سے کیوں روکتے ہو جو ایمان لائے ہیں؟ تم اِس میں عیب ڈھونڈتے ہو، دراں حالیکہ تم اِس کے گواہ بنائے گئے ہو؟ (اِس پر غور کرو) اور (یاد رکھوکہ) جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ اُس سے بے خبر نہیں ہے۔“،(آل عمران99:3)

”اور (ہماری اِس اسکیم میں انسان کے امتحان کو سمجھنے کے لیے) وہ واقعہ بھی اِنھیں سناؤ، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو وہ سب سجدہ ریز ہوگئے، ابلیس کے سوا۔ اُس نے انکار کر دیا اور اکڑ بیٹھا اور اِس طرح منکروں میں شامل ہوا۔“،(البقرہ34:2)

”جب اُن پر آفت ٹوٹ پڑتی تو کہتے: اے موسیٰ، اپنے پروردگار سے تم اُس عہد کی بنا پر جو اُس نے تم سے کر رکھا ہے، ہمارے لیے دعا کرو۔ اگر یہ آفت تو نے (اِس وقت) ہم سے ہٹا دی تو ہم تمھاری بات ضرور مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی ضرور تمھارے ساتھ جانے دیں گے۔ پھر جب کچھ مدت کے لیے، جس تک اُنھیں بالآخر پہنچنا ہی تھا، وہ آفت ہم اُن سے ہٹا دیتے تو اُسی وقت عہد کو توڑ دیتے تھے۔“،(الاعراف134-135:7)

”اور جادوگر (خدا کی اِس نشانی کو دیکھ کر) سجدے میں گر پڑے۔ اُنھوں نے (بے اختیار) کہا: ہم جہانوں کے پروردگار پر ایمان لے آئے ہیں۔ جو موسیٰ اور ہارون کا پروردگار ہے۔“،(الاعراف120-122:7)

”حقیقت یہ ہے کہ (وہ مان چکی ہوتی، مگر) اُسے اُن چیزوں نے روک رکھا تھا جنھیں وہ اللہ کے سوا پوجتی تھی۔ اِس لیے کہ وہ ایک منکر قوم سے تھی۔ اُسے کہا گیا کہ اب محل میں داخل ہو جائیے۔ پھر جب اُس نے محل (کے فرش) کو دیکھا تو سمجھی کہ گہرا پانی ہے اور اپنی پنڈلیوں سے پائنچے اٹھا لیے۔ سلیمان نے کہا: یہ تو شیشوں سے بنا ہوا محل ہے۔ (اِس پر) وہ پکار اٹھی: میرے پروردگار، میں اپنی جان پر ظلم کرتی رہی ہوں۔ (سو لوٹتی ہوں) اور سلیمان کے ساتھ ہو کر اب میں نے اپنے آپ کو اللہ رب العٰلمین کے حوالے کر دیا ہے۔“، (النمل43-44:27)

”اور اِن میں وہ لوگ بھی ہیں کہ اللہ کی کتاب کو پڑھتے ہوئے اپنی زبان کو اِس طرح توڑتے مروڑتے ہیں کہ تم سمجھو کہ (جو کچھ وہ پڑھ رہے ہیں)، وہ کتاب ہی کی عبارت ہے، دراں حالیکہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، درآں حالیکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا، اور اِس طرح جانتے بوجھتے اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔“،(آل عمران78:3)

”اِن میں ایسے بھی ہیں جو کان لگا کر تمھیں سنتے ہیں، مگر اِن کے دلوں پر ہم نے (اپنے قانون کے مطابق) پردے ڈال دیے ہیں کہ (جو کچھ سنتے ہیں)، اُسے نہ سمجھیں اور اِن کے کانوں کو بہرا کر دیا ہے کہ سن کر بھی نہ سنیں۔ یہ اگر ہر قسم کی نشانیاں دیکھ لیں، پھر بھی اُن پر ایمان نہ لائیں گے۔ یہاں تک کہ تمھارے پاس حجت کرتے ہوئے آئیں گے تو یہ منکرین کہیں گے کہ یہ تو محض اگلوں کے افسانے ہیں۔“، (الانعام25:6)

”(اِس وقت) میں اُن کو ڈھیل دے رہا ہوں، اِس لیے کہ میری تدبیر بڑی محکم ہے۔“، (الاعراف183:7)

”اور جب اُس چیز کو سنتے ہیں جو خدا کے رسول پر اتری ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق کو پہچان لینے کے باعث اُن کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلتے ہیں۔ وہ پکار اُٹھتے ہیں کہ پروردگار، ہم نے مان لیا، سو ہمارا نام تو اِس کی گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔“،(المائدہ83:5)