Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (82) شخصی رویے : ،غفلت، ظاہر پرستی اور لغویات ۔ ابویحییٰ

انسان کی حواس پرستی

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں جس امتحان میں ڈالا ہے وہ اس پہلو سے بہت آسان ہے کہ جو مطالبات اس سے کیے گئے ہیں وہ اس کی فطرت کے بہت قریب اور اس کی عقل کے عین مطابق ہیں۔ خیر و شر اور جزا و سزا کا تصور انسان کی فطرت کے اندر ودیعت کیا گیا ہے۔ ایک خدا کی بندگی اور آخرت کی پیشی جیسے تصورات انسان کی فطرت ہی نہیں اس کی عقل کے لیے بھی مکمل طور پر قابل قبول ہیں۔ دین حق کی تعلیمات جو عدل و احسان کی طرف بلاتی اور فواحش، حق تلفی اور ظلم سے روکتی ہیں ہر پہلو سے انسان کو بہت اپیل کرتی ہیں۔

مگر انسان اس دنیا میں جس قالب میں بھیجا گیا ہے وہ ایک حیوانی قالب ہے۔ انسان کے اس حیوانی قالب کی ضروریات کی تکمیل اس کی سب سے بنیادی ترجیح بن جاتی ہے۔ انسان کی حیوانی جبلتیں اکثر اس کی فطرت کی آواز پر غالب ہو جاتی ہیں اور اس کی عقل کو اپنا غلام بنا لیتی ہیں۔ انسان کو اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے جو حواس دیے گئے ہیں، انسان بار بار ان کا اسیر ہو جاتا ہے۔ محسوس پرستی معقولیت پر غالب آجاتی ہے۔ انسان حقائق کو چھوڑ کر ظواہر کا پیرو بن کر رہ جاتا ہے۔ فرع اصل کی جگہ لے لیتی ہے۔ سیر کی جگہ تولہ اور ماشہ کی اہمیت ہو جاتی ہے۔ انسان اپنی آنکھوں پر غفلت کی پٹی باندھ لیتا ہے اور انجام سے بے پروا ہو جاتا ہے۔ اصل مقصد کو چھوڑ کر لغویات میں متاع وقت کو ضائع کر دیتا ہے۔ یہ تمام چیزیں مل کر انسان کو فطرت کی آواز سننے سے روک دیتی اور عقل کی آنکھوں سے دیکھنے سے معذور کر دیتی ہیں۔

قرآن مجید : اس کی یاد دہانی اور تنبیہ
یہی وہ پس منظر ہے جس میں قرآن مجید کو عقل و فطرت کے حقائق کی ایک زندہ یاددہانی بنا کر اتارا گیا ہے۔ اسے دل پذیر نصیحت اور دل کی زندگی کو لاحق ہوجانے والے ان امراض کی شفا بنا کر نازل کیا گیا ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید نے براہ راست ان میں سے ہر مرض پر شدید تنقیدیں بھی کی ہیں۔ قرآن مجید یہ بتاتا ہے کہ پچھلی اقوام کو کتابیں دی گئیں، ان میں نبی بھیجے گئے، حق و باطل ان پر پوری طرح کھول دیا گیا۔ اس سارے اہتمام کے بعد وہ لوگ اصل دینی حقائق اور مطالبات کو چھوڑ کر ظواہر دین میں الجھ کر رہ گئے۔ کبھی یہود و نصاریٰ نے یہ بحث حق و باطل کا معیار بنا کر اٹھا دی کہ بیت المقدس کا مشرقی حصہ قبلہ ہے یا مغربی حصہ۔ کبھی گروہی نجات کی بحث اٹھا دی کہ نجات یہودی یا نصرانی ہونے کی شکل میں ملے گی۔ کہیں یہود نے تورات کے اصل احکام کو چھوڑ کر بعض روایات کی پیروی میں ان چیزوں کو اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیا جو حضرت یعقوب نے ذاتی ذوق کی بنا پر چھوڑ دی تھیں۔ کہیں نصاریٰ نے توحید کی سیدھی راہ کو چھوڑ کر تثلیت کی پگڈنڈیوں میں خود کو بھٹکا دیا۔ کہیں حیلے بہانے تھے جن سے یوم السبت کی حرمت کو پامال کیا گیا۔ کہیں مشرکانہ ذوق کے تحت مقدس گائے کی قربانی کے حکم سے بچنے کے لیے بے مقصد سوالات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔

اصل کو چھوڑ کر فروعات کی پیروی، فرقہ بندی، ظواہر پرستی، توحید اور اصل احکام کو حیلے بہانوں کی نذر کرنا اہل کتاب کی گمراہی کا اہم سبب رہا ہے۔ اسی طرح کفار مکہ کی اپنی گمراہیاں تھیں جن پر قرآن مجید نے بار بار تنقید کی جن میں وہ اصل دین کو چھوڑ کو جزوی اور فروعی چیزوں کو خدا پرستی کا معیار بنا چکے تھے جیسے شرک کے ساتھ حجاج کی خدمت اور حرم کی تعمیر۔ ساتھ میں یہ بھی بتا دیا کہ یہ تمام گروہ اپنی گمراہی میں خوب مگن ہیں۔ ان کی گمراہی کی وجہ یہ ہے کہ یہ خواب غفلت میں پڑے ہیں۔ دنیا کی زندگی میں کھو کر آخرت کے حقائق کو فراموش کرچکے ہیں۔ لغویات سے اعراض کے بجائے انھی میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ نصیحت اور ہدایت سے روگردانی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ حق کی پیروی اور نیک لوگوں کے اتباع کے بجائے خواہش نفس کی پیروی کو اپنا طریقہ بنا رکھا ہے۔ خدا کی طرف متوجہ ہونے، اس کی طرف لوٹنے کے بجائے اور اس کی یاد میں جینے کے بجائے غفلت کی روش پر چلے جارہے ہیں۔سوچنے سمجھنے کے بجائے اپنے دل و ماغ کے دروازوں کو بند کر بیٹھے ہیں۔ انسانوں کی طرح پکار کر جواب دینے کے بجائے جانوروں کی طرح بن گئے ہیں جو دیکھنے سننے کے باوجود بھی کسی معقول بات کو نہیں سمجھتے۔

اس رویے کا انجام
قرآن مجید ان تمام انسانی کمزوریوں کی طرف بہت شدت سے متوجہ کرکے لوگوں کو جھنجھوڑتا ہے کہ وہ اپنی غفلت کو چھوڑ کر ہدایت کی بات سن لیں۔ ظواہر پرستی کو چھوڑ کر اصل دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہوں۔ لغویات کو چھوڑ کر آخرت کی کامیابی کو اپنا ہدف بنا لیں۔ اس کے ساتھ قرآن مجید صراحت کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ اس رویے کا انجام یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی غفلت اور بے حسی ان کے دل و دماغ پر مہر لگ جانے کا باعث بن جاتی ہے۔ ان کا اصرار معصیت ان کو ابدی جہنم کے انجام کا مستحق بنا دیتا ہے۔ ان کی غفلت ان کو آمادہ کرتی ہے کہ وہ حق کا انکار کریں، اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کھلی نشانیوں کی تکذیب کریں اور اپنی ہلاکت کا خود انتظام کر دیں۔ چنانچہ نہ صرف دنیا کی ہلاکت ایسے لوگوں کا مقدر بنتی ہے بلکہ آخرت کے جن حقائق سے وہ غافل رہے روز قیامت انھیں سر کی آنکھوں سے وہ حقائق دکھائے جائیں گے اور پھر جہنم رسید کر دیا جائے گا۔ یہی وہ تنبیہات ہیں جو واضح طور پر بتاتی ہیں کہ اپنی غفلت میں مگن رہنا، اصل دین کو چھوڑ کر ظواہر کو اختیار کرنا اور دنیا کی زندگی کو مقصد بنا کر لغویات میں زندگی گزار دینا ہلاکت کا راستہ ہے۔

قرآنی بیانات
”تم اپنے آپ کو اُن لوگوں کے ساتھ جمائے رکھو جو اپنے پروردگار کی رضا جوئی میں صبح و شام اُس کو پکارتے ہیں۔ تمھاری آنکھیں دنیوی زندگی کی رونق کی خاطر اُن سے ہٹنے نہ پائیں اور تم اُن لوگوں کی بات پر دھیان نہ کرو جن کے دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیے ہیں اور جو اپنی خواہشوں کے پیچھے پڑے ہیں اور جن کا معاملہ حد سے گزر گیا ہے۔“،(الکہف28:18)

”اے جنوں اور انسانوں کے گروہ، کیا تمھارے پاس خود تمھارے اندر سے وہ پیغمبر نہیں آئے تھے جو میری آیتیں تمھیں سناتے اور تمھارے اِس دن کی ملاقات سے تمھیں خبردار کرتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم خود اپنے خلاف گواہ ہیں۔ (اِن پر افسوس)، دنیا کی زندگی نے اِنھیں دھوکے میں ڈالے رکھا اور اب خود اپنے خلاف گواہی دے رہے ہیں کہ وہ منکر تھے۔ ہم نے یہ پیغمبر اِسی لیے بھیجے تھے کہ تمھارا پروردگار بستیوں کو اُن کے ظلم کی پاداش میں ہلاک کرنے والا نہیں ہے، جب کہ اُن کے باشندے (حقیقت سے) بے خبر ہوں۔“، (الانعام130-131:6)

”(یہ متنبہ ہو جائیں)، جنوں اور انسانوں میں سے بہتوں کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ اُن کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں ہیں۔ اُن کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں ہیں۔ اُن کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں ہیں۔ وہ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ وہی ہیں جو بالکل غافل ہیں۔“،(الاعراف179:7)

”لیکن اگر وہ تم پر زور ڈالیں کہ کسی کو میرا شریک ٹھیراؤ جس کے بارے میں تمھارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے تو اُن کی بات نہ ماننا۔ دنیا میں، البتہ اُن کے ساتھ نیک برتاؤ رکھنا اور پیروی اُنھی کے طریقے کی کرنا جو میری طرف متوجہ ہیں۔ پھر تم کو میری ہی طرف پلٹنا ہے۔ پھر میں تمھیں بتا دوں گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔“،(لقمان15:31)

”اپنے رب کو صبح و شام یاد کرو، (اے پیغمبر)، دل ہی دل میں عاجزی اور خوف کے ساتھ اور بولنے میں ہلکی آواز سے اور اُن لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔“،(لاعراف205:7)

”سو ہم نے اُن سے انتقام لیا اور اُنھیں سمندر میں غرق کر دیا، اِس لیے کہ اُنھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور اُن سے بے پروا بنے رہے۔“،(الاعراف136:7)

”لوگوں کے لیے اُن کے حساب کا وقت قریب آلگا ہے اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے اعراض کیے جارہے ہیں۔“،(الانبیا1:21)

”تم اِس دن سے غفلت میں رہے تو اب وہ پردہ ہم نے تم سے ہٹا دیا جو تمھارے آگے پڑا ہوا تھا۔سو آج تو تمھاری نگاہ بہت تیز ہے۔“،(ق22:50)

”اور جنت اُن لوگوں کے قریب لائی جائے گی جو خدا سے ڈرنے والے ہیں اور وہ کچھ زیادہ دور نہ ہوگی۔ یہی وہ چیز ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو بہت رجوع کرنے والا اور اپنے پروردگار کے حدود کی حفاظت کرنے والا تھا، جو بن دیکھے رحمن سے ڈرتا تھا اور ایسا دل لے کر حاضر ہوا ہے جو (خدا کی طرف) متوجہ رہتا تھا۔“،(ق31-33:50)

”اپنی مراد کو پہنچ گئے ایمان والے۔ جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔ جو لغویات سے دور رہنے والے ہیں۔“،(المومنون1-3:23)

”یہ اِس لیے کہ اُنھوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو عزیز رکھا اور اِس لیے کہ اِس طرح کے منکر لوگوں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں اور کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور یہی ہیں جو (آخرت سے) غافل ہیں۔“، (النحل107-108:16)

”حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے اور اِسی دنیا کی زندگی پر راضی اور مطمئن ہوگئے ہیں اور جو ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔ اُنھی کا ٹھکانا جہنم ہے، اُن کے کرتوتوں کی پاداش میں۔“،(یونس7-8:10)

”ہاں، کیوں نہیں، جن لوگوں نے کوئی بدی کمائی ہے اور اُن کے گناہ نے اُنھیں پوری طرح گھیر لیا ہے، وہی دوزخ کے لوگ ہیں، وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے۔“،(البقرہ81:2)

”لوگو، تمھارے پروردگار کی طرف سے تمھارے پاس نصیحت آگئی ہے اور جو سینوں میں (دھڑکتے) ہیں، اُن کی شفا اور اُن کے لیے ہدایت و رحمت جو ماننے والے ہوں۔“،
(یونس57:10)

”اے اہل کتاب، اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ کے حق میں حق کے سوا کوئی بات نہ کہو۔ حقیقت یہ ہے کہ مسیح عیسیٰ ابن مریم اللہ کا ایک رسول اور اُس کا ایک قول ہی تھا جو اُس نے مریم کی طرف القا فرمایا تھا اور اُس کی جانب سے ایک روح تھا (جو اللہ نے اُس میں پھونک دی تھی)۔ سو اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور (اللہ کو) تین نہ بناؤ۔ باز آجاؤ، یہی تمھارے حق میں بہتر ہے۔ اللہ ہی تنہا معبود ہے، وہ اِس سے پاک ہے کہ اُس کے اولاد ہو۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے اور اُن کے معاملات کو دیکھنے کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔“ (النساء171:4)

”(اِنھیں اعتراض ہے کہ یہ پیغمبر تورات کی تصدیق کرتے ہیں تو اُس میں جو چیزیں حرام ہیں، اُن میں سے بعض کو حلال کیوں سمجھتے ہیں؟ کہہ دو کہ) کھانے کی یہ سب چیزیں بنی اسرائیل کے لیے بھی (اِسی طرح) حلال تھیں، سوائے اُن کے جو اسرائیل نے تورات کے نازل ہونے سے پہلے خود اپنے لیے ممنوع ٹھیرالی تھیں۔ کہہ دو کہ نہیں مانتے تو لاؤ تورات اور اُس کو پڑھو، اگر تم سچے ہو۔“،(آل عمران93:3)

”کیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد حرام کا انتظام کر دینے کو اُن لوگوں کے برابر کر دیا ہے جو اللہ اور روز آخر پر ایمان لائے اور جنھوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہے؟ اللہ کے نزدیک یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ (مسجد حرام کے اِن مجاوروں نے اپنے اوپر ظلم ڈھایا ہے اور اب) اللہ اِن ظالم لوگوں کو راہ یاب نہیں کرے گا۔“،(التوبہ19:9)

”بولے: (ایک مرتبہ اور) اپنے رب کو ہمارے لیے پکارو کہ ہم کو اچھی طرح وضاحت کے ساتھ بتائے کہ وہ کیسی ہو، ہمیں گایوں میں کچھ شبہ پڑ رہا ہے، اور اللہ نے چاہا تو اب ہم ضرور اُس کا پتا پالیں گے۔ اُس نے کہا: وہ فرماتا ہے کہ وہ گائے محنت والی نہ ہو کہ زمین جوتتی اور فصلوں کو پانی دیتی ہو۔ وہ ایک ہی رنگ کی ہو، اُس میں کسی دوسرے رنگ کی آمیزش نہ ہو۔ بولے: اب تم واضح بات لائے ہو۔ اِس طرح اُنھوں نے اُس کو ذبح کیا اور لگتا نہ تھا کہ وہ یہ کریں گے۔“، (البقرہ70-71:2)

”اور تم اُنھیں بھی جانتے ہی ہو جنھوں نے تمھارے لوگوں میں سے سبت کی بے حرمتی کی تو ہم نے اُن سے کہا: جاؤ، ذلیل بندر بن جاؤ۔ اِس طرح اُن کی اُس بستی کو، (جس میں اُنھوں نے سبت کی بے حرمتی کی تھی)، ہم نے اُس کے گرد و پیش کے لیے ایک نمونہ عبرت اور خدا سے ڈرنے والوں کے لیے ایک ذریعہ نصیحت بنا دیا۔“،(البقرہ65-66:2)

”وہ صرف دنیا کی زندگی کے ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت سے تو وہ بالکل ہی بے خبر ہیں۔“، (الروم7:30)

”اِس لیے اتارا گیا ہے کہ تم اُن لوگوں کو خبردار کرو جن کے اگلوں کو خبردار نہیں کیا گیا تھا، لہٰذا غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔“،(یسین6:36)

”(یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ سے وفا کا حق مذہب کی کچھ رسمیں پوری کر دینے سے ادا ہو جاتا ہے۔ اِنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ کے ساتھ وفا داری صرف یہ نہیں کہ تم نے (نماز میں) اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف کرلیا، بلکہ وفا داری تو اُن کی وفا داری ہے جو پورے دل سے اللہ کو مانیں اور قیامت کے دن کو مانیں اور اللہ کے فرشتوں کو مانیں اور اُس کی کتابوں کو مانیں اور اُس کے نبیوں کو مانیں اور مال کی محبت کے باوجود اُسے قرابت مندوں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور مانگنے والوں پر اور لوگوں کی گردنیں چھڑانے میں خرچ کریں، اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ اور وفاداری تو اُن کی وفاداری ہے کہ جب عہد کر بیٹھیں تو اپنے اِس عہد کو پورا کرنے والے ہوں اور خاص کراُن کی جو تنگی اور بیماری میں اور جنگ کے موقع پر ثابت قدم رہنے والے ہوں۔ یہی ہیں جو (اللہ کے ساتھ اپنے عہدِ وفا میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو فی الواقع پرہیز گار ہیں۔“،(البقرہ177:2)

”یہ کہتے ہیں کہ کوئی شخص جنت میں داخل نہ ہوسکے گا، جب تک وہ یہودی یا نصرانی نہ ہو۔ یہ اِنھوں نے محض آرزوئیں باندھ لی ہیں۔ اِن سے کہو، تم سچے ہو تو (اِس کے لیے) اپنی کوئی دلیل پیش کرو۔ (اِن کی اِس بات میں کوئی حقیقت نہیں)۔“،(البقرہ111:2)