Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (80) شخصی رویے : دنیا کے معاملے میں درست رویہ ۔ ابویحییٰ

دنیا کی زندگی اور دو انسانی رویے

انسان جب اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو وہ اپنے چاروں طرف مادی حقائق کو دیکھتا ہے۔ حتیٰ کہ اس کا اپنا وجود بھی ایک مادی وجود ہے جس کی مادی ضروریات ہیں۔ یہ دنیا بظاہر انھی مادی ضروریات کو بہترین طریقے پر پورا کرنے کا ایک ذریعہ بن کر سامنے آتی ہے۔ دوسرا یہ کہ انسانی شخصیت ضروریات سے آگے بڑھ کر تین مزید تصورات اپنے اندر رکھتی ہے۔ ایک اس کے ذوقِ جمال سے پیدا ہونے والی خواہشات، دوسرا اس کی مادی کمزوریوں، حالات کے اندیشوں اور کل کے تصور سے جنم لینے والی مادی اشیا کی کثرت کا کی تمنا اور تیسرا اپنے ہم جنسوں سے آگے بڑھنے اور ان پر برتری اور تفوق کا جذبہ۔ یہ تینوں وہ چیزیں ہیں جو بہت محدود مادی تقاضوں کی تکمیل کے باوجود انسان کو اس پر آمادہ کرتی ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے مادی تقاضوں کی تکمیل کے لیے بھرپور جدوجہد کرے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ اس راہ میں مزاحم ہونے والی اقدار کو بھی پامال کر دے۔ یہیں سے مادہ پرستی اور حب دنیا کی وہ سوچ پیدا ہوتی ہے جو نہ صرف پورے سماج کو ظلم، فساد، خونریزی اور بدامنی سے بھر دیتی ہے بلکہ خود دنیا پرستی میں مبتلا فرد کو ذہنی سکون سے بھی محروم کر دیتی ہے۔

انسانی تاریخ انسانوں کے اسی ظلم اور اس سے پیدا ہونے والے فساد کی تاریخ ہے۔ بہت سے مصلحین نے جب اس ظلم کے پیچھے خواہشات دنیا کی کارفرمائی کو دریافت کیا تو اس مسئلے کا واحد حل انھیں یہی سمجھ آیا کہ رہبانیت اور ترک دنیا کو ایک آئیڈیل کے طور پر پیش کیا جائے۔ یہ حل چونکہ عملاً ناقابل عمل تھا اس لیے انسانوں کی ایک محدود اقلیت کے سوا یہ کبھی عمومی رویہ نہ بن سکا۔ مگر اس کا اثر یہ ضرور ہوا کہ اچھے لوگوں کے لیے دنیا ہمیشہ برائی کی ایک جڑ رہی۔ سادگی اصل اور مطلوب دینی انسانی قدر بن گئی اور ضروریات پر قانع رہ کر روحانی مقاصد کے لیے جدوجہد کرنا نیکی کا معیار قرار پاگیا۔

نزول قرآن کے وقت یہی صورتحال تھی کہ ایک طرف بادشاہوں، امیروں اور طاقتوروں کی مادیت پرستی نے دنیا کو فساد سے بھر رکھا تھا اور دوسری طرف دنیا سے قطع تعلق کرکے مسیحی رہبانیت اور بدھ مت کے ترکِ دنیا کو نیکی کا اصل معیار سمجھا جاتا تھا۔ یہی دو مذاہب اُس وقت مشرق و مغرب میں غالب ترین عالمی مذاہب تھے۔ اسلام نے آکر دنیا کے بارے میں نہ صرف ایک انتہائی متوازن نقطہ نظر دیا بلکہ اس حوالے سے وہ تعلیمات پیش کیں جنھوں نے دین و دنیا کی دوئی کو ہمیشہ کے لیے مٹا دیا۔ عملی طور پر گرچہ مسلمانوں میں بہت کچھ افراط و تفریط رہا لیکن قرآن مجید کی تعلیمات کو سمجھ لیا جائے تو وہ آئیڈیل شخصی رویہ سامنے آجائے گا جو دنیا و آخرت کی فلاح کا ضامن ہے۔

دنیا کے بارے میں قرآن مجید کی تعلیم
دنیا کے بارے میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ یہ دنیا (اور اس میں پائی جانے والی خوبصورتیاں) اپنی ذات میں محمود یا مذموم نہیں بلکہ یہ انسانوں کی امتحان گاہ ہے۔ انسان اس دنیا میں جو حیات مستعار پاتا ہے وہ امتحان کے لیے ہے۔ اب یہ اس پر ہے کہ وہ اس دنیا پر ریجھ کر ایمان و اخلاق کے تقاضوں کو فراموش کرتا ہے یا پھر دنیا کو اس طرح برتتا ہے کہ ایک طرف اپنی ضروریات و خواہشات کی تکمیل کرے اور دوسری طرف ایمان و اخلاق کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے آخرت کی ابدی لذتوں اور نعمتوں کو اپنا ہدف بنا کر ان کے حصول کے لیے نیکیوں کا ذخیرہ کرے۔

فلاح آخرت کے اس ہدف میں نہ صرف کسی مرحلے پر دنیا اور اس کی نعمتیں اپنی ذات میں ممنوع نہیں ہیں بلکہ یہاں کا جمال آخرت کے جمال کا تعارف اور یہاں کے بلند درجات وہاں کے بلندی مراتب کا ایک عملی نمونہ ہیں۔ یہ دنیا اور خاص کر اموال دنیا کا تو ایک اہم مقصد یہی ہے کہ ان سے آخرت کمائی جائے۔ قارون کو یہی نصیحت کی گئی تھی کہ مال دنیا سے آخرت میں اپنا حصہ لے جانا نہ بھولو۔ مراد اس سے یہی تھی کہ جس طرح اللہ نے تم پر مال دے کر احسان کیا ہے، اسے دوسروں پر خرچ کرکے اسے اپنی آخرت کے لیے ذخیرہ کرو۔ اسی طرح حسنات آخرت کے ساتھ حسنات دنیا کی دعا کو ایک مطلوب وصف کے طور پر پیش کیا گیا۔ حضرت ابراہیم نے اپنی اولاد کو جب مکہ کی ’وادی غیر ذی زرع‘ میں آباد کیا تو دینی مقاصد کے ساتھ دنیوی ثمرات کی دعا بھی ان کے لیے کی۔ خود اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اہل ایمان کو آخرت کے صلے کے ساتھ دنیا میں بدلے کی امید دلائی ہے۔

دنیا کے متعلق قرآن مجید کے بعض بیانات کی درست نوعیت
دنیا کے متعلق قرآن مجید کی اس اصولی تعلیم کے باوجود غلط فہمی دراصل قرآن مجید کے بعض بیانات اور سیرت طیبہ کے بعض پہلوؤں کو درست طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ قرآن مجید جن لوگوں میں نازل ہوا ان کی اکثریت نے اول دن سے اس کی تعلیمات کا انکار کر دیا تھا۔ اس انکار کی بنیادی وجہ دنیا کی وہ محبت تھی جس میں اندھے ہوکر وہ بدترین اخلاقی رویے کا شکار تھے۔ اسلام قبول کرنے کا مطلب ان اخلاقی پابندیوں کو قبول کرنا تھا جو بظاہر دنیا پرستی کے ان کے رویے پر روک لگا دینے والی تھیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنے کفر و انکار کی دسیوں وجوہات پیش کیں، حضور پر اعتراضات کی بھرمار کر دی؛ مگر درحقیقت ان کے کفر کے پیچھے کارفرما اصل عامل ان کی اندھی مادہ پرستی اور حب دنیا تھی۔ چنانچہ قرآن مجید نے اس اصل وجہ پر انتہائی شدید ضرب لگائی۔ قرآن مجید درجنوں بیانات سے بھرا ہوا ہے جس میں اس اندھی دنیا پرستی کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ قرآن نے اسے دنیا کے بدلے میں آخرت خریدنے، دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے، دنیا کی محبت میں مبتلا ہونے، دنیا کا انھیں دھوکے میں ڈالنے، دنیا کی محبت میں مبتلا ہونے، دنیا پر راضی ہونے، ان کی تمام تر سعی و کاوش کا حصول دنیا میں گم ہوجانے، دنیا پر خوش رہنے، دنیا کا نگاہوں میں مزین ہوجانے، دنیا کو سب کچھ جان کر آخرت کا انکار کر دینے جیسے اسالیب سے تعبیر کیا ہے۔ وہ دنیا کو دھوکے کا سامان، متاع قلیل، مال و اولاد کو فتنہ، لہو و لعب، زینت و تفاخر اور تکاثر، فنا ہوجانے والی عارضی کھیتی اسی پس منظر میں قرار دیتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ دنیا جب اس طرح انسان کا مقصود محض بن جائے تو کفر، سرکشی اور تکذیب حق کا سبب بن جاتی ہے۔ دنیا پرستی کے ایسے مریضوں کے پاس اگر سب کچھ سونے چاندی کا ہوتب بھی وہ بے کار ہے اور ان کے ظلم و عدوان کی بنا پر ان کی نیکیاں بھی آخرت میں رائیگاں جائیں گی۔

دنیا کی مذمت کے تمام تر قرآنی بیانات کا یہ پس منظر ہے کہ قرآن کا انکار کرنے والے پہلے بھی اور آج بھی جب زبانی یا عملی انکار کرتے ہیں تو اس کے پیچھے یہی دنیا کی محبت ہوتی ہے۔ چنانچہ جہاں حق کا انکار نہیں وہاں خدا کی مقرر کردہ حدود کے سوا کوئی پابندی نہیں۔ اسلامی اخلاق و شریعت نے ظلم، حق تلفی، فواحش، اسراف و تبذیر جیسے رذائل کے سوا ہر طرح کی دنیوی نعمتوں سے تمتع و استفادے کو بالکل جائز قرار دیا ہے۔

سیرت طیبہ کی خصوصیت
قرآن مجید میں حضور کی زندگی کا یہ پہلو بھی واضح کیا گیا ہے کہ حضور کے ساتھ بحیثیت ایک زوجہ کے رہنے کی شرط یہی تھی کہ دنیا اور اس کی زینت کو ہدف بنانے کے بجائے آخرت کو ہدف بنایا جائے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضور کی زندگی کا جو مشن تھا، اس میں عرب کے تمام اطراف سے لوگ ہجرت کرکے مدینہ آرہے تھے۔ مدینہ کی چھوٹی سے بستی پر مہاجرین کا بہت دباؤ تھا۔ یہ آنے والے حضور کے ساتھ مسجد نبوی میں رہتے تھے۔ حضور جو اس ریاست مدینہ کے سربراہ تھے، آپ نے اسلام کی اصولی تعلیمات کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے قربانی و ایثار کا راستہ اختیار کیا۔ چنانچہ جو مال آتا آپ اپنے بجائے پہلے ان لوگوں کو ترجیح دیتے۔ چنانچہ حضور کے رویے کے پیچھے ترک دنیا کا عنصر نہ تھا بلکہ ایثار و قربانی کا عظیم جذبہ تھا۔ یہی قربانی آپ کی ازواج مطہرات سے دینے کا مطالبہ قرآن مجید میں کیا گیا اور گویا حضور کے اس طرز عمل پر آخری درجہ میں سند محبوبیت عطا کی گئی۔ خلفائے راشدین نے بھی بر بنائے تقوی اسی اصول کو اختیار کیا تاکہ لاکھوں میل پر پھیلی سلطنت کے غریب ترین شخص کی سطح پر زندگی گزار کر اس کی ضروریات سے آگاہ رہیں۔ تاہم یہ کوئی دینی مطالبہ نہ تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو قرآن مجید میں حضرت سلیمان کی عظمت اور شان کا وہ تصور نہ بیان ہوتا جسے دیکھ کر ملک یمن کی عظیم سلطنت کی ملکہ بھی ان کے محل میں خود کو ایک دیہاتی محسوس کرنے پر مجبور ہوگئی۔

رہبانیت کی حقیقت
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اسلام نے کھانے پینے اور دیگر نعمتوں پر کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ اسلام میں شکر گزاری ایک بنیادی قدر ہے نہ کہ سادگی۔ اپنی ذات میں کوئی بھی شخص سادہ ہوسکتا اور سادگی کو پسند کرسکتا ہے۔ اپنے ذوق کے مطابق، حب جاہ سے بچنے کے لیے یا اپنے مشن کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے کوئی بھی شخص سادہ زندگی گزار سکتا ہے۔ اسی طرح شادی نہ کرنا، گھر بار کی ذمہ داریوں سے دور رہ کر خود کو علم، دعوت یا عبادت کے لیے وقف کرنا بھی کوئی غیر دینی عمل نہیں ہے۔ اگر اللہ کی رضا کے لیے ان میں سے کچھ بھی کیا جائے گا تو اس پر اجر ملے گا۔ مگر اس طرح کی چیزوں میں بنیادی بات یہ ہوتی ہے کہ انھیں کبھی دینی مطالبہ یا قدر بنا کر بطور دعوت لوگوں کے سامنے پیش نہ کیا جائے ورنہ یہ ایک بدعت بن جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے بارے میں اصل دینی مطالبہ قرآن نے بیان کردیا ہے جس کی تفصیل ہم نے شروع میں کر دی ہے۔ اس کے برعکس جاکر ترک دنیا کو ایک دینی مطالبہ یا دینی عمل بنانا رہبانیت کی اس روایت کو جنم دیتا ہے جو ہر اعتبار سے ایک بدعت ہے۔

قرآنی بیانات
”جن لوگوں نے اپنے پروردگار سے کفر کیا ہے، اُن کے اعمال کی مثال اُس راکھ کی سی ہے جس پر آندھی کے دن تند و تیز ہوا چل جائے۔ اُنھوں نے جو کچھ کیا ہوگا، اُس میں سے کچھ بھی نہ پاسکیں گے۔ یہی دور کی گمراہی ہے۔“،(ابراہیم18:14)

”اے ہمارے پروردگار، میں نے اپنی کچھ اولاد کو تیرے حرمت والے گھر کے پاس ایک بن کھیتی کی وادی میں لا بسایا ہے۔ پروردگار، اِس لیے کہ وہ اِس گھر میں نماز کا اہتمام کریں۔ سو تو لوگوں کے دل اُن کی طرف مائل کر دے اور اُنھیں پھلوں کی روزی عطا فرما، اِس لیے کہ وہ (تیرا) شکر ادا کریں۔“،(ابراہیم37:14)

”دیکھ لو، اِن کے ایک کو دوسرے پر ہم نے کس طرح فضیلت دے رکھی ہے اور آخرت کے درجے اور اُس کی فضیلت، البتہ کہیں بڑھ کر ہے۔“،(الاسراء21:17)

”آدم کے بیٹو، ہر مسجد کی حاضری کے وقت اپنی زینت کے ساتھ آؤ، اور کھاؤ پیو، مگر حد سے آگے نہ بڑھو۔ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اِن سے پوچھو، (اے پیغمبر)، اللہ کی اُس زینت کو کس نے حرام کر دیا جو اُس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی تھی اور کھانے کی پاکیزہ چیزوں کو کس نے ممنوع ٹھیرایا ہے؟ اِن سے کہو، وہ دنیا کی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہیں، (لیکن خدانے منکروں کو بھی اُن میں شریک کر دیا ہے) اور قیامت کے دن تو خاص اُنھی کے لیے ہوں گی، (منکروں کا اُنمیں کوئی حصہ نہ ہوگا)۔ ہم اُن لوگوں کے لیے جو جاننا چاہیں، اپنی آیتوں کی اِسی طرح تفصیل کرتے ہیں۔

کہہ دو، میرے پروردگار نے تو صرف فواحش کو حرام کیا ہے، خواہ وہ کھلے ہوں یا چھپے اور حق تلفی اور ناحق زیادتی کو حرام کیا ہے اور اِس کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیراؤ، جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اِس کو کہ تم اللہ پر افترا کرکے کوئی ایسی بات کہو جسے تم نہیں جانتے۔“،(الاعراف31-33:7)

”جب اپنے حج کے مناسک پورے کر لو تو جس طرح پہلے اپنے باپ دادا کو یاد کرتے رہے ہو، اُسی طرح اب اللہ کو یاد کرو، بلکہ اُس سے بھی زیادہ۔ (یہ اللہ سے مانگنے کا موقع ہے)، مگر لوگوں میں ایسے بھی ہیں کہ وہ (اِس موقع پر بھی) یہی کہتے ہیں کہ پروردگار، ہمیں (جو کچھ دینا ہے، اِسی) دنیا میں دے دے، اور (اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پھر) آخرت میں اُن کا کوئی حصہ نہیں رہتا۔“،(البقرہ200:2)

”اور اُن میں ایسے بھی ہیں کہ جن کی دعا یہ ہوتی ہے کہ پروردگار، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔“،(البقرہ201:2)

”وہی لوگ اللہ کی راہ میں لڑنے کے لیے نکلیں جو دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے میں دے ڈالنے کے لیے تیار ہوں۔ (اُن کے لیے بشارت ہے کہ) جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غلبہ پائے گا، اُسے ہم ضروراجر عظیم عطا کریں گے۔“،(النساء74:4)

”اُن لوگوں کے لیے (جو اِس بصیرت سے محروم ہیں) دنیا کے مرغوبات عورتوں، بیٹوں، سونے چاندی کے ڈھیروں، نشان زدہ گھوڑوں، چوپایوں اور کھیتی کی محبت بہت لبھانے کی چیز بنا دی گئی ہے۔ یہ سب دنیا کی زندگی کا سر و سامان ہے اور اچھا ٹھکانا تو صرف اللہ کے پاس ہے۔“،(اٰلِ عمران14:3)

”ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور تم کو تمھارا پورا پورا بدلہ تو قیامت کے دن ہی ملے گا۔ پھر جو دوزخ سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے، وہی کامیاب ہے اور یہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سودا ہے۔“،(اٰلِ عمران185:3)

”حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل تماشا ہے۔ آخرت کا گھر، البتہ کہیں بہتر ہیاُن کے لیے جو تقویٰ اختیار کریں۔ پھر کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟“،(الانعام32:6)

”جن لوگوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے اور جنھیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا ہے، اُنھیں چھوڑو اور اِس قرآن کے ذریعے سے یاددہانی کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کرتوتوں کی پاداش میں ہلاکت کے حوالے نہ کر دیا جائے۔“،(الانعام70:6)

”حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے اور اِسی دنیا کی زندگی پر راضی اور مطمئن ہوگئے ہیں اور جو ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔“،(یونس7:10)

”جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور خدا کے راستے سے روکتے ہیں اور اُس میں ٹیڑھ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ بہت دور کی گمراہی میں ہیں۔“، (ابراہیم3:14)

”لوگو، تم کوئی حجت نہیں پاتے، بلکہ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو،“،(اعلیٰ16:87)

”وہ لوگ جن کی تمام سعی و جہد دنیا کی زندگی میں اکارت ہوگئی اور وہ اِسی خیال میں رہے کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔“(الکہف104:18)

”اللہ جس کو چاہتا ہے، رزق کی فراخی عطا فرماتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے، اُسے تنگ کر دیتا ہے۔ یہ (اِس حقیقت کو نہیں سمجھے اور) اِسی دنیا کی زندگی پر ریجھے ہوئے ہیں، درآں حالیکہ دنیا کی یہ زندگی آخرت میں محض ایک متاع حقیر ہی نکلے گی۔“،(الرعد26:13)

”جو دنیا کا صلہ چاہے گا، اُس کو ہم اُسی میں سے دیں گے اور جو آخرت کا صلہ چاہے گا، اُس کو وہاں سے دیں گے اور اپنے شکر گزاروں کو ہم اُن کی جزا لازماً عطا فرمائیں گے۔“،(اٰلِ عمران145:3)

”……اِس دنیا کی زندگی میں جو کچھ وہ (بظاہر اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں، اُس کی تمثیل ایسی ہے کہ پالے کی ہوا ہو جو اُن لوگوں کی کھیتی پر چل جائے جنھوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہو اور اُسے برباد کر دے۔ (یہ اِسی کے سزاوار ہیں) اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے اِن پر کوئی ظلم نہیں کیا، بلکہ یہ آپ ہی اپنے اوپر ظلم کرتے رہے ہیں۔“،(اٰلِ عمران117:3)

”دنیا کی زندگی اِن منکروں کے لیے بڑی دل پسند بنا دی گئی ہے۔“، (البقرہ212:2)

”کہتے ہیں کہ زندگی تو یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے اور مرنے کے بعد ہم ہرگز نہ اٹھائے جائیں گے۔“،(الانعام29:6)

”موسیٰ نے دعا کی:۱ے ہمارے رب، تو نے فرعون کو اور اُس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں شان و شوکت اور مال و اسباب سے نوازا ہے۔ اے ہمارے رب، تاکہ اِس کا نتیجہ یہ ہو کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے بھٹکا دیں۔ اے ہمارے رب، اُن کے مال اب تو غارت کر دے اور اُن کے دلوں کو اِس طرح بند کر دے کہ ایمان نہ لائیں، یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔“،(یونس88:10)

”اُس کی قوم کے سرداروں نے، جو منکر تھے، جنھوں نے آخرت کی ملاقات کو جھٹلا دیا تھا اور دنیا کی زندگی میں جن کو ہم نے آسودہ کر رکھا تھا، کہا کہ یہ تو بس تمھارے جیسا ایک آدمی ہے۔ وہی کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی پیتا ہے جو تم پیتے ہو۔“،(المومنون33:23)

”وہ صرف دنیا کی زندگی کے ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت سے تو وہ بالکل ہی بے خبر ہیں۔“،(الروم7:30)

”لوگو، اپنے پروردگار کی گرفت سے بچو اور اُس دن سے ڈرو، جس دن نہ کوئی باپ اپنی اولاد کے کام آئے گا اور نہ کوئی اولاد اپنے باپ کے کچھ کام آنے والی بن سکے گی۔ بے شک، اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ سو دنیا کی زندگی تمھیں ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ وہ دھوکے باز تمھیں اللہ کے معاملے میں کبھی دھوکا دینے پائے۔“،(لقمان33:31)

”حقیقت یہ ہے کہ یہ سب چیزیں تو محض دنیا کی زندگی کا سامان ہیں اور آخرت، (اے پیغمبر)، تیرے پروردگار کے ہاں صرف اُن کے لیے ہے جو خدا سے ڈرنے والے ہیں۔“، (الزخرف35:43)

”(تم اِس خرچ سے جی نہ چراؤ اور) جان رکھو کہ دنیا کی زندگی، یعنی لہو و لعب، زیب و زینت اور مال و اولاد کے معاملے میں باہم ایک دوسرے پر فخر جتانے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی تگ و دو کرنے کی تمثیل اُس بارش کی ہے جس کی اگائی ہوئی فصل اِن منکروں کے دل لبھائے، پھر زور پر آئے اور تم دیکھو کہ وہ زرد ہوگئی ہے، پھر (کوئی آفت آئے اور) ریزہ ریزہ ہو جائے۔ (جان رکھو کہ) آخرت میں (اِس کے بعد) سخت عذاب ہے اور اللہ کی طرف سے مغفرت اور اُس کی خوشنودی بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی یہ زندگی تو متاع غرور کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔“،(الحدید20:57)

”یہ تم ہو جو دنیا کا سر و سامان چاہتے ہو، اللہ تو آخرت چاہتا ہے اور اللہ زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔“،(الانفال67:8)

”پھر اللہ نے اُن کو دنیا کا صلہ بھی دیا اور آخرت کا اچھا اجر بھی عطا فرمایا۔ (یہی ہیں جو خوبی سے عمل کرنے والے ہیں) اور اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو خوبی سے عمل کرنے والے ہوں۔“،(اٰلِ عمران148:3)

”یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے آخرت دے کر دنیا کی زندگی خریدلی، اِس لیے اب نہ اِن سے عذاب ہی ہلکا ہوگا اور نہ کوئی مدد اِنھیں پہنچے گی۔“،(البقرہ86:2)

”کیا تیرے پروردگار کی رحمت یہی تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں اِن کی معیشت کا سامان تو اِن کے درمیان ہم نے تقسیم کیا ہے اور اِس طرح تقسیم کیا ہے کہ ایک کے درجے دوسرے پر بلند رکھے ہیں تاکہ یہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں اور تیرے پروردگار کی رحمت اُس سے بہتر ہے جو یہ جمع کر رہے ہیں۔“،(الزخرف32:43)

”اور جو کچھ خدا نے تمھیں دے رکھا ہے، اُس میں آخرت کے گھر کے طلب گار بنو اور اِس دنیا سے اپنا حصہ وہاں لے جانا نہ بھولو اور جس طرح خدا نے تمھارے ساتھ احسان کیا ہے، اُسی طرح تم بھی دوسروں کے ساتھ احسان کرو اور زمین میں فساد کے خواہاں نہ ہو، اِس لیے کہ اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“،(القصص77:28)

”(اِس طرف سے مایوس ہو کر اب یہ منافقین تمھارے گھروں میں فتنے اٹھانا چاہتے ہیں، اِس لیے)، اے نبی، اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اُس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمھیں دے دلا کر خوش اسلوبی کے ساتھ رخصت کر دوں۔“،(احزاب28:33)

”……مگر رہبانیت اُنھوں نے خود ایجاد کرلی۔ ہم نے اُسے اُن پر فرض نہیں کیا تھا۔ یہ بات، البتہ ضرور فرض کی تھی کہ وہ اللہ کی خوشنودی چاہیں۔ سو اُنھوں نے اُس کے حدود، جس طرح کہ چاہیے تھا، ملحوظ نہیں رکھے۔ تاہم اُن میں سے جو لوگ ایمان پر قائم رہے، اُن کا اجر ہم نے اُنھیں عطا فرمایا، مگر اُن میں سے زیادہ نافرمان ہی نکلے۔“،(الحدید27:57)