Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (49) حقوق باری تعالیٰ:عبادت رب ۔ ابو یحییٰ

حقوق باری تعالیٰ:عبادت رب
ہم نے پیچھے یہ بیان کیا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے حوالے سے عائد کردہ پہلا اور بنیادی مطالبہ شرک سے پرہیز ہے۔شرک کا عملی ظہور غیر اللہ کی عبادت اور پرستش کی شکل میں ہوتا ہے۔چنانچہ جب اللہ تعالیٰ دینی مطالبات بیان کرتے ہوئے شرک سے روکتے ہیں توساتھ ہی ایک اللہ کی عبادت یعنی اس کی بندگی کا حکم دیتے ہیں۔
”اور اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو بھی اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔”،( النسائ36: 4)
خدا کی عبادت یا بندگی ایک جامع اصطلاح ہے۔ لغوی طور پراس کی اصل عاجزی اورپستی ہے۔یہ عاجزی اورپستی قلب پر طاری ہوجانے والی وہ کیفیت ہے جس میں انسان معبودکی عظمت، قدرت اور طاقت سے مرعوب ہوکرخود کو اس کا ایک عاجز بندہ اور بے کس غلام سمجھ کر زندگی گزارتا ہے۔عبد و معبود کے اس تعلق کا پہلا ظہورپرستش ہے جس کی کامل ترین شکل نماز ہے۔ چنانچہ یہی وہ پس منظر ہے جس میں نمازکے اندر خشوع یعنی عاجزی کے اظہار کو ایک دینی مطالبے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ارشادی باری تعالیٰ ہے:
”جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔” ،(مومنون 23:2)
یہ خشیت قلبی جس کا اظہار نمازکے موقع پر ہوتا ہے ،اہل ایمان کا ایک مستقل وصف ہے جو انھیں فکروعقیدے کی ہر آلائش سے بچاکر بندوں کے حقوق کے معاملے میں حساس بنادیتی ہے۔ چنانچہ وہ اپنے مالک کے حکم پر اس کے بندوں پر خرچ کرتے ہیں مگر اللہ کی راہ میں خرچ کرکے بھی اس کے محاسبہ کے خیال سے لرزاں وترساں رہتے ہیں۔ارشاد ہے۔
”بے شک وہ لوگ جو اپنے رب کی خشیت سے ہر وقت ترساں ہیں۔ اور وہ لوگ جو اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو اپنے رب کا کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔ اور وہ لوگ جو دیتے ہیںتو جو کچھ دیتے ہیں اس طرح دیتے ہیں کہ ان کے دل ڈرے ہوئے رہتے ہیں کہ انھیں خدا کی طرف پلٹنا ہے۔”،(مومنون 23:57-60)
تاہم خدا خوفی کا یہ احساس کوئی منفی جذبہ نہیں جو کسی جابر کے خوف سے پیدا ہوتا ہو بلکہ یہ ایک کریم ہستی کی نظر کرم سے محروم ہوجانے کا اندیشہ ہے جس نے بندوں کو ان گنت نعمتیں دے رکھی ہیں۔ اورجس کی ناراضی کا مطلب دنیا و آخرت کی تمام نعمتوں سے محروم ہوجانا ہے۔ چنانچہ خدا کا یہ خوف ،طمع سے پیدا ہوتا ہے اور تمام مظاہر عبودیت اسی خوف وطمع کا ظہور ہیں۔
یہی خوف و طمع ہے جو بندہ مومن کو معبودکا پیغام اور اس کی نشانیاں سامنے آنے پر اس کے حضور سجدہ ریز ہونے ، اس کی تسبیح و تعریف کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ایسے انسان کے دل سے اپنی بڑائی کا ہر شائبہ نکل جاتا ہے ۔ وہ اس کی بندگی کے لیے اتنا حساس ہوجاتا ہے کہ رات کے وقت اپنا راحت بھرا بستر چھوڑکر اس کی عبادت کے لیے اٹھتا ہے اور طمع و خوف کے ساتھ اسے ہی پکارتا ہے۔ایسا انسان اپنا ہر گروہی تعصب چھوڑ کر حق کے اعتراف میں بے تابانہ روتے ہوئے زمین بوس ہوجاتا ہے ۔ یہ ان کا خشوع ہی ہوتا ہے جو انھیں اعتراف حق پر مجبور کرتا ہے اور سچائی کا سامنے آنا ان کے اندر خدا کی عظمت کے احساس کو اور بڑھادیتا ہے۔
”ہماری آیات پر تو بس وہی لوگ ایمان لاتے ہیں جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کے ذریعہ سے ان کو یاددہانی کی جاتی ہے تو وہ سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ ان کے پہلو بستروں سے کنارہ کش رہتے ہیں۔ وہ اپنے رب کو پکارتے ہیں خوف اور طمع سے اور جو کچھ ہم نے ان کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔”،(سجدہ 15-16: 32)
”ان سے کہہ دو کہ تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، وہ لوگ جن کو اس کے پہلے سے علم ملا ہوا ہے جب یہ ان کو سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ پاک ہے ہمارا پروردگار، بے شک ہمارے پروردگار کا وعدہ شدنی تھا۔”،(بنی اسرائیل107-108:17)
خدا کی یہ عبادت جو ایک قلبی کیفیت سے آگے بڑھ کر بندگی کے ان مظاہر میں ڈھلتی ہے جنھیں مراسم عبودیت یا پرستش کہا جاتا ہے اور جن کی نمایاں مثالیں تسبیح و تمجید،دعا وزاری، رکوع وسجود اور انفاق وغیرہ کی شکل میں اوپر بیان ہوئیں، جب انسان کے عملی وجود سے متعلق ہوتی ہے تو اسے مجبور کرتی ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں جہاں اس کے مالک کا حکم آجائے، اس کی اطاعت کرتے ہوئے اس کے سامنے سر اطاعت ختم کردے۔ ارشادی باری تعالیٰ ہے۔
” اہل کتاب کھلی ہوئی نشانی آ جانے کے بعد ہی اختلاف میں پڑے۔ ان کو حکم یہی ہوا تھا کہ وہ اللہ ہی کی بندگی کریں، اپنی اطاعت کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے، بالکل یکسو ہو کر اور نماز کا اہتمام رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور یہی سیدھی ملت کا دین ہے۔”،(البینہ4-5: 98)
”تم اللہ ہی کی بندگی کرو، اپنی اطاعت کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ یاد رکھو کہ خالص اطاعت اللہ ہی کے لیے ہے۔”،(الزمر 39:2-3)
اس تمام تفصیل سے یہ بات واضح ہے کہ عبادت ایک قلبی کیفیت ہے جس میں انسان ایک عظیم ہستی کی قدرت ِکاملہ کے سامنے اپنے عجز مطلق کو دریافت کرتا ہے۔پھر خوف و طمع کے ساتھ اسے پکارتا، مراسم عبودیت بجالاتا اور عملی زندگی کے ہر شعبے میں اسی کی اطاعت کرتا ہے۔
بندگی کی یہ سوچ جو انسان کے قلب وذہن کااحاطہ کرلے، اس کے مراسم عبودیت کو تنہا رب رحمن کے لیے خاص کردے اوراس کی عملی اور دنیوی زندگی کو بھی خدا کی فرمانبرداری کے سانچے میں ڈھال دے ،شرک سے بچنے کے ساتھ دین کا وہ بنیادی مطالبہ ہے جو حقوق رب کے ضمن میں قرآن مجید سے سامنے آتا ہے۔یہی وہ دینی مطالبہ ہے جو تمام دینی احکام کا اصل ماخذ اور مقصد ِتخلیق ہے:
”اور جنوں اور انسانوں کومیں نے صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔”،(الذاریات 51:56)