Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (37) دعوت کا ابلاغ: نبوت و رسالت ۔ ابو یحییٰ

دعوت کا ابلاغ: نبوت و رسالت

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جس امتحان میں ڈالا ہے وہ یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتا ہے یا نہیں۔ اس مقصد میں ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت میں خیر و شر کا شعور رکھا ہے اور دوسری طرف پہلے دن ہی سے اپنی مرضی سے آگاہ کرنے کے لیے نبوت و رسالت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو ایک نبی بھی بنایا تھا۔ انھیں اپنی ہدایت سے نوازا۔ پھرعارضی طور پر ایک باغ میں رکھ کر انھیں ایک عملی تجربے سے گزار کر یہ بتایا گیا کہ کس طرح شیطان ان کا اور ان کی اولاد کا کھلا دشمن ہے۔ وہ انھیں اللہ کی مرضی سے ہٹانے کی کوشش کرے گا۔ پھر دنیا میں بھیجتے وقت ان کو یہ بتا دیا گیا کہ اب اللہ کی ہدایت ان کے پاس وقفے وقفے سے آتی رہے گی۔ جو اس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ خوف و حزن سے نجات پا کر جنت کی بادشاہی کو پائے گا اور جو انکار کرے گا وہ جہنم کا ایندھن بنایا جائے گا۔

منصب نبوت اور وحی الٰہی

اللہ تعالیٰ کی یہ ہدایت انسانوں کو پہنچانے کے لیے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں سے براہ راست کلام فرمائیں۔ کسی انسان کی یہ حیثیت نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے شرف مخاطبت عطا کریں۔ اس مقصد کے لیے وہ انسانوں ہی میں سے کچھ شخصیات کو اپنے علم وحکمت کی بنیاد پر چن لیتے ہیں اور ان کو منصب نبوت پر فائز کر دیتے ہیں۔ یہ منصب کوئی کسبی چیز نہیں بلکہ سرتاسر ایک وہبی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے علم و حکمت کی بنیاد پر عطا کرتے ہیں۔ ان انبیا پراللہ تعالیٰ اپنی وحی نازل کرتے ہیں۔ یہ وحی براہ راست ان کے دل میں بھی اتاری جاتی ہے اور فرشتوں کے ذریعے سے بھی پہنچائی جاتی ہے اور کسی آڑ سے اللہ تعالیٰ یا فرشتے بھی انبیا سے کلام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ خواب یا بیداری میں حضرات انبیا کو مختلف غیر معمولی مشاہدات کرائے جاتے ہیں جو بہت سے غیبی حقائق اورمستقبل کے واقعات ان پر کھول دیتے ہیں۔

اس وحی کی بنیاد پر حضرات انبیا لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ یہ ان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ فطرت انسانی میں موجود پوشیدہ حقائق کو بالکل کھول کر اور متعین کر کے انسانوں کے سامنے پیش کر دیں۔ توحید، آخرت اور فطرت صالح کو، مرغوب اعمال صالح ان کے سامنے بالکل واضح کر دیں۔ اس فطرت کی حفاظت کے لیے جو قوانین اللہ تعالیٰ نے طے کیے ہیں اور جن کو شریعت کہا جاتا ہے، ان سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ اسی طرح حق کو اختیار کرنے اور باطل سے بچنے کے لیے ان کو حق کی یاد دہانی کراتے رہیں اور اس بات سے خبردار کریں کہ ایک روز لوگوں کو اللہ کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ اس روز برے اعمال والے اپنی برائی کا انجام بھگتے گیں اور اچھے اعمال والے اپنے اعمال کا اجر پائیں گے۔

حضرات انبیا نبوت ملنے سے قبل بھی انسانی فطرت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہوتے ہیں اور نبوت پانے کے بعد جس دعوت کو لے کر اٹھتے ہیں خود اس کا بہترین نمونہ بن کر دکھاتے ہیں۔ تاہم یہ انبیا انسانوں کے لیے ایک نمونہ بنا کر بھیجے جاتے ہیں، اس لیے بشر ہی ہوتے ہیں لیکن بشر کامل بن کر آتے ہیں۔ یہ انبیاء علیہم السلام انسانوں کو وہ دعوت حق پہنچاتے ہیں جو انسانوں کے اپنے وجود کی فطری پکار ہوتی ہے اور جس کی تصدیق وہ اپنے اندرموجود فطرت میں پاتے ہیں۔ ان کی دعوت ایسے روشن دلائل پر مشتمل ہوتی ہے جس کی تائید انفس و آفاق کی نشانیاں کرتی اور عقل انسانی اس دعوت کی بھرپور تصدیق کرتی ہے۔ اس کی بہت کچھ تفصیل ہم دلائل قرآن میں کر چکے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ انبیا اپنے ساتھ وہ معجزات لے کر آتے ہیں جو ان کے مخاطبین پر یہ آخری درجے میں واضح کر دیتے ہیں کہ یہ حضرات اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا جو ایک تیز رفتار اژدہا بن جایا کرتا تھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خصوصی معجزات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا کلام قرآن مجید ان معجزات کی چند مثالیں ہیں جنھوں نے اپنے مخاطبین پر یہ واضح کر دیا تھا کہ ان کے پاس اس کے جواب میں پیش کرنے کو کچھ نہیں اور بلاشبہ یہ حضرات اللہ کے نبی ہیں۔

یہ حضرات انبیا ایک طرف نخل فطرت کا کامل نمونہ ہوتے ہیں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ ان کی عصمت کا یہ خصوصی اہتمام کرتے ہیں کہ کوئی شیطانی دراندازی ان کو کبھی صحیح راستے سے نہیں پھیر سکتی۔ نبوت ملنے کے بعد ہی نہیں بلکہ ا سے پانے سے قبل بھی ان کی حفاظت کا وہ خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے جس کا ذکر حضرت یوسف کے واقعہ میں قرآن کرتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کو عزیز مصر کی بیوی کے دام فریب میں مبتلا ہونے سے روکا۔ قرآن مجید واضح ہے کہ اللہ کی برہان نہ ہوتی تو وہ اس دلدل میں اتر سکتے تھے جس کی طرف وہ عورت ان کو کھینچ رہی تھی، (یوسف 24:12)۔ اس عصمت کے ساتھ اللہ کے خصوصی قرب اور بارنبوت کے بوجھ کو سہارنے کے لیے ان کو خصوصی عبادت و ریاضت کا حکم دیا جاتا ہے۔ یوں ان کی ریاضت، ان کی عصمت اور ان کی فطرت اس عظیم ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے انتہائی موزوں بن جاتی ہے۔

یہی وہ پس منظر ہے جس میں حضرات انبیا انسانیت کا گل سرسبد کہلاتے اور تمام جہان والوں پر فضیلت کے حقدار ہوجاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اسی بنا پر وہ تمام انسانیت کے لیے ایک بہترین نمونہ اور قابل اطاعت ہستی قرار پاتے ہیں اور ان کی اطاعت اللہ کی اطاعت قرار پاتی ہے۔

منصب رسالت

منصب نبوت کے ضمن میں ہم نے یہ واضح کیا ہے کہ حضرات انبیا اللہ سے وحی و الہام پاتے ہیں اور انسانیت تک اس کا ابلاغ کرتے ہیں۔ انسانی فطرت میں جو ہدایت مجرد تصورات اور اجمالی شکل میں ودیعت کی گئی، وہ اسے کھول کھول کر اور بالکل متعین کر کے خدا کی مرضی ایک واضح شکل میں لوگوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ تاہم انسانی دنیا میں جہاں سماج ایک فرد کے مقابلے میں بہت طاقتورہوتا ہے اور اکثر ریاست و اقتدار کی قوت حق کے خلاف کھڑی ہوجاتی ہے، اس بات کی ضرورت پیش آتی ہے کہ ہدایت کے ابلاغ کو اس طرح یقینی بنایا جائے کہ قوم کسی صورت نبی کو مغلوب نہ کرسکے۔ بلکہ دعوت کے اختتام پر نبی اور اس کے پیروکار قوم پر غالب آجائیں۔ نہ ماننے والوں کا نام و نشان مٹا دیا جائے اور ان کو عبرت کا نمونہ بنادیا جائے۔

ایسا کرنے سے نہ صرف انسانیت کا سفر ایک دفعہ پھر وہیں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے حضرت آدم اور ان کی اولاد نے حق کی مکمل روشنی میں کیا تھا بلکہ باقی دنیا کے سامنے بھی ایک نمونہ آ جاتا ہے کہ کس طرح روز قیامت خدا کی نافرما نی کرنے والے جہنم کے حقدار ہوں گے اور ماننے والے جنت کی بادشاہی کا انعام پائیں گے۔ اسی طرح خود نبی کے بارے میں آخری درجہ میں یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ اللہ کا بھیجا ہوا پیغمبر یا رسول ہے۔ جن انبیا ء سے یہ خدمت لی جاتی ہے اور ان کا دنیا ہی میں خدا کی طرف سے بھیجا ہوا ہونا آخری درجہ میں ثابت کر دیا جاتا ہے، ان کو اصطلاحاً رسول کہا جاتا ہے۔

ان رسولوں کے ذمے یہ کام ہوتا ہے کہ وہ انسانوں پر اللہ تعالیٰ کا پیغام اس طرح واضح کر دیں کہ قیامت کے د ن انسان یہ عذر نہ پیش کرسکیں کہ ان تک ہدایت نہیں پہنچ سکی۔ چنانچہ یہ رسول اپنی دعوت قوم کو پہنچاتے ہیں، ان پر آخری درجہ میں حق واضح کرتے ہیں، ان کے سامنے اپنے معجزات پیش کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ ان کی بات نہیں مانی گئی تو قوم پر خدا کا عذاب اسی دنیا میں آجائے گا۔ چنانچہ ایک وقت کے بعد جس کا تعین اللہ تعالیٰ کرتے ہیں، ان رسولوں کو اپنے ساتھیوں سمیت ہجرت کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد قوم پر عذاب آ جاتا ہے اور صرف اہل ایمان کو اس عذاب سے بچایا جاتا ہے۔

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی ہونے کے ساتھ ایک رسول بھی تھے۔آپ کے بعد نبوت و رسالت کا ادارہ قیامت تک کے لیے ختم کر دیا گیا ہے۔ آپ آخری نبی اور رسول تھے۔ آپ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا اور نہ آپ کے سوا تاقیامت اب کسی اور کی پیروی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔

قرآنی بیانات

’’ہم نے (اے پیغمبر)، تمھاری طرف اسی طرح وحی کی ہے ، جس طرح نوح اور اس کے بعد کے پیغمبروں کی طرف کی تھی۔ اور ہم نے ابراہیم، اسمٰعیل، اسحق، یعقوب، اولاد یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف وحی کی ، اور داؤد کو ہم نے زبور عطا فرمائی تھی۔ ہم نے اُن رسولوں کی طرف بھی وحی بھیجی جن کا ذکر ہم تم سے پہلے کر چکے ہیں اور اُن رسولوں کی طرف بھی جن کا ذکر تم سے نہیں کیا، اور موسیٰ سے تو اللہ نے کلام کیا تھا، جس طرح کلام کیا جاتا ہے ۔ یہ رسول جو بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے بنا کر بھیجے گئے تاکہ اِن رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کوئی عذر پیش کرنے کے لیے باقی نہ رہے، اور اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے ۔‘‘   (النساء 4: 165-163)

’’ہم نے تمھیں حق کے ساتھ بھیجا ہے، بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر، اور کوئی قوم ایسی نہیں جس میں کوئی خبردار کرنے والا نہ آیا ہو۔‘‘        (فاطر35: 24)

’’اور کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے، مگر وحی کے ذریعے  سے یا پردے کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ بھیجے اور اس کے اذن سے جو وہ چاہے، اس کی طرف وحی کر دے ۔ وہ بڑا ہی عالی مقام اور بڑی حکمت والا ہے ۔‘‘  (الشوریٰ42: 51)

’کہہ دو: پاک ہے میرا پروردگار، کیا میں ایک پیغام سنانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں؟ اور لوگوں کے سامنے جب ہدایت آئی تو اُن کو ایمان لانے سے کسی چیز نے نہیں روکا، مگر اُن کی اس بات نے کہ کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ کہہ دو: اگر زمین پر فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ان پر آسمان سے کسی فرشتے ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجتے ۔‘‘      (بنی اسرائیل17: 95-93)

’’اور وہ عورت تو اس کی طرف بڑھ ہی چکی تھی، یوسف بھی بڑھ جاتا اگر اپنے پروردگار کی برہان نہ دیکھ لیتا۔ ہم نے ایسا ہی کیا تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو دور رکھیں ۔ بے شک، وہ ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھا۔‘‘  (یوسف 12: 24)

۔۔’’اور ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب ان کا وہ رسول آجائے توان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا‘‘، (یونس 47:10)

’’اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے ، اسی لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے ۔‘‘ (النسائ4: 64)

’’تیرے پروردگار کی قسم، یہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک اپنے اختلافات میں تمہی کو حکم نہ مانیں اور جو فیصلہ تم کر دو، اپنے دلوں میں تنگی محسوس کیے بغیر اس کے آگے اپنے سر نہ جھکا دیں ۔‘‘         (النساء 4: 65)

’’ان سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گنا ہوں کو بخش دے گا اور (یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ) اللہ بخشنے والا ہے، اس کی شفقت ابدی ہے ۔‘‘         (آل عمران3: 31)

’’محمد تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۔‘‘  (الاحزاب 33: 40)