Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (21) دلائل توحید: قدرت ۔ ابو یحییٰ

دلائل توحید: قدرت

قرآن مجید میں ربوبیت کے ساتھ توحید کی دوسری اہم ترین دلیل قدرت کی بیان ہوئی ہے ۔ ربوبیت کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں خود انسانی وجود اور پھر اس وجود کے لیے زمین و آسمان میں نعمتوں کے جو اسباب مہیا کیے گئے ہیں ، ان کا تقاضہ ہے کہ انسان ان نعمتوں کے عطا کرنے والے رب کے اعتراف اور شکر میں اپنی زندگی گزارے۔ قدرت کی دلیل ایک دوسرے پہلو سے انسانوں کو اس پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ غیر اللہ کی بندگی چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی عبادت اور اطاعت کو اپنی زندگی بنالیں۔ یہ پہلو اس قوت، طاقت، اختیار، غلبہ اور قدرت کا ہے جو اللہ پروردگار عالم کو اس کائنا پر حاصل ہے ۔

کائنات پر خدا کے اختیار و اقتدار سے استدلال

انسان ایک اللہ کی عبادت اور بندگی کیوں کرے اور کیوں اسے ہی اپنا رب مانے، قرآن کریم اس بات کو دو بنیادی پہلوؤں سے واضح کرتا ہے۔ ایک پہلو جسے قرآن مجید سامنے لاتا ہے وہ کائنات پر خدا کے اختیار اور اس کے اقتدار کا ہے۔ قرآن کریم یہ واضح کرتا ہے کہ یہ اللہ ہی ہے جس نے آسمان و زمین کو اپنی قدرت سے پیدا کیا۔ وہی ساری مخلوقات کا خالق ہے ۔ وہی آسمان و زمین اور ان کے بیچ کی ہر چیز کا مالک ہے ۔ ہر شے پر اسی کا حکم چلتا ہے ۔ زمین وآسمان میں ایک ذرہ بھی نہیں جو اس کے علم اور قدرت سے باہر ہو۔ سورج اسی کے حکم سے ڈوبتا اور نکلتا ہے۔ چاند اسی کے فرمان کے مطابق اپنی منزلیں طے کرتا ہے ۔ تارے اور درخت اسی کے حکم کے سامنے سجدہ ریز ہیں ۔ یہاں جو بھی ہیں سب اس کے غلام، بندے اور مطیع ہیں۔ کائنات پر اسی کی بادشاہی ہے ۔ وہی ہر کسی کا آقا ہے ۔ کسی کو کوئی مشکل پیش آتی ہے تو اللہ ہی اس کی مشکل دور کرتا ہے ۔ وہی ہر مضطر وبے قرار کی دادرسی کرنے والا ہے ۔ ہر نفع اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ ہر ضرر سے وہی بچاتا ہے ۔ ہر تکلیف وہی دور کرتا ہے ۔ ہر درد کی دوا اس کے پاس ہے ۔ ہر زخم کا مرہم وہ دیتا ہے ۔ وہی ہنساتا ہے ۔ وہی آنسو پونچھتا ہے ۔ وہی دیتا ہے ۔ وہی لے سکتا ہے ۔ وہ اپنے آپ زندہ ہے ۔ وہ ہر کسی کو زندگی دیتا ہے ۔ وہ اپنی ذات میں قائم ہے ۔ اسی کی وجہ سے ہر ایک وجود پاتا ہے ۔ زندگی اور موت اسی کے اختیار میں ہے ۔

ایک طرف اس کی یہ طاقت ہے تو دوسری طرف اسے کوئی عجز درپیش نہیں۔ وہ ہر ممکنہ کمزوری سے پاک ہے ۔ وہ ایسا زندہ ہے جسے موت نہیں آنی۔ وہ ایسا بادشاہ ہے جس کی سلطنت کو کوئی زوال نہیں ۔ اسے کبھی کسی کمزوری کا اندیشہ نہیں کہ کسی مددگار کی ضرورت ہو۔ وہ سب سے پہلے تھا۔ اس سے پہلے کوئی نہیں۔ وہ سب کے بعد ہو گا۔ اس کے بعد کوئی نہیں ۔ وہ نگاہوں کو پالیتا ہے ۔ مگر کوئی نگاہ اس کو نہیں پا سکتی۔ اس کو بیوی کی ضرورت ہے نہ اولاد کی۔ بیٹے کی ضرورت ہے نہ بیٹی کی۔ اسے نیند آتی ہے نہ اونگھ آتی ہے۔ اسے نہ کسی دشمن کا خوف ہے نہ کسی حریف کا کوئی اندیشہ۔ نہ اس کی جنس کا کوئی ہے اور نہ اس کا ہم سر اور مقابل ہی کوئی ہے۔ اس کی معلومات میں کوئی اضافہ کرسکتا ہے نہ اس کی مرضی کے بغیر کوئی کچھ جان سکتا ہے ۔ ایک پتہ نہیں گرتا مگر اس کے علم میں ہوتا ہے ۔ ایک دانہ نہیں اگتا مگر اس کی اجازت لے کر۔ وہ اس وقت سنتا ہے جب کوئی نہیں سن سکتا۔ وہ اس وقت دیکھ لیتا ہے جب کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ وہ ان کی خبر رکھتا ہے جن کی خبر کوئی نہیں رکھ سکتا۔

یہ ہے اللہ۔ تنہا اللہ ۔ پاک اللہ ۔ قادر مطلق۔ قدیر مطلق۔ الملک۔ القدوس۔ العلی۔ العظیم۔اس کے سواکوئی معبود نہیں ۔ تو پھر اس کے سوا اور کون ہے جس کی عبادت کی جائے ۔ اس کے سوا کون ہے جس کی اطاعت کی جائے ۔ اس کے سوا کون ہے جس کے آگے گڑگڑایا جائے ۔ اس کے سوا کون ہے جس کے سامنے رکوع و سجود کیے جائیں ۔

غیر اللہ اور معبودان باطل کا عجز

قرآن کریم اسی پر بس نہیں کرتا بلکہ اس ایک ایک جھوٹے معبود کو لیتا ہے جسے انسانوں نے اپنی پرستش کا موضوع بنایا ہوتا ہے ۔ وہ بتاتا ہے کہ یہ ہیں تمھارے معبود۔ جو فرشتے ہیں تو خدا کے ادنیٰ اور حقیر غلاموں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔ خدا کی مرضی اور اذن کے بغیر وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتے ۔ وہ اگر جن ہیں تو ان کی حیثیت خدا کی ایک مخلوق سے زیادہ کچھ نہیں ۔ وہ اپنے وجود اور اپنی ہر ضرورت لیے خدا کی نظر کرم کے محتاج ہیں۔ وہ تمھارے وفات شدہ بزرگ ہیں تو یاد رکھو وہ تمھاری داد رسی کیا کریں گے، ان کو تو کچھ اپنی خبر نہیں ۔ یہ نہیں پتہ کہ موت کی جس بے کسی میں وہ جا چکے ہیں اس سے کب اٹھائے جائیں گے۔ انھیں نہ دنیا کی خبر ہے نہ وہ تمھاری کوئی فریاد سن سکتے ہیں۔ وہ اگر بت ہیں تو وہ اپنے اوپر بیٹھی ہوئی مکھی تک نہیں اڑا سکتے اور مکھی ان کے پاس سے کوئی ذرہ بھی اٹھا کر لے جائے تو وہ اسے بھی واپس لینے کی قدرت نہیں رکھتے ۔ نہ دیکھ سکتے ہیں ، نہ سن سکتے ہیں ، نہ بول سکتے ہیں ، نہ چل سکتے ہیں ، نہ پکڑ سکتے ہیں ۔ وہ اگر اللہ کے نیک بندے اور پیغمبر ہیں تو وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے کہ اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارا جائے نہ کبھی انھوں نے اس کی تعلیم ہی دی ہے ۔ پیدا ہونے والے ، کھانا کھانے والے ، پانی پینے والے اور آخر کار مرکر دنیا سے رخصت ہو جانے والے انسان تمھارے معبود کیسے ہو سکتے ہیں؟ وہ چاند سورج اور ستارے ہیں تو یہ اجرام فلکی خود خدا کے حکم کی تعمیل میں دوڑے چلے جاتے ہیں ۔ ان کی مجال نہیں کہ خدا کے مقرر کردہ راستے سے سر مو انحراف کرسکیں ۔ یہ معبود کیسے ہو سکتے ہیں ؟

غرض قرآن مجید ایک ایک معبود باطل کو لیتا ہے اور اس کے معبود ہونے کے تصور کے ایسے بخیے ادھیڑتا ہے کہ انسان ذرا بھی اپنے تعصب سے بلند ہوکر سوچے تو کبھی بھی ان کی عبادت کا تصور نہ کرے۔ قرآن مجید غیر اللہ کے عجز ہی کو واضح نہیں کرتا بلکہ شرک کی اس بھونڈی تاویل کو بھی بالکل رد کرتا ہے کہ ان کی بندگی اور عبادت کا حکم خود خدا نے دیا ہے ۔ یا ان کی عبادت کرنے سے اللہ راضی ہوتا ہے۔ قرآن کریم واضح کرتا ہے کہ یہ محض ایک دعویٰ اور ظن و گمان کی پیروی ہے ۔ اس کا کوئی ثبوت اور کوئی دلیل مشرکین کے پاس نہیں۔ اس خاص پہلو پر ہم تفصیلی گفتگو توحید کی تاریخی روایت کی دلیل کے ضمن میں کریں گے جہاں یہ بتایا جائے گا کہ عقل، نقل اور صالحین کی شہادت سب اس کے خلاف کھڑے ہیں کہ کسی نے شرک کی تائید و حمایت یا اس کی تلقین ہی کی ہو۔ یہاں ہم صرف ان تمثیلوں کے پہلوؤں سے اس بات کو زیر بحث لا رہے ہیں جو خدا کی قدرت اور غیر اللہ کے عجز کے حوالے سے قرآن نے شرک کی تردید میں دی ہیں ۔

خدا کی قدرت اور غیر اللہ کے عجز کی تمثیلیں

قرآن کریم بڑی خوبصورتی سے اہل عرب کی روزمرہ زندگی اور معمولات سے مثالیں اٹھا کر ان کو بتاتا ہے کہ جب خدا کے بارے میں یہ سچائی ہے کہ سارا اختیار اسی کا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے بالمقابل کسی کے پاس کوئی طاقت اور اختیار نہیں تو پھر غیر اللہ کی عبادت ایک لغو اور لایعنی چیز سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ تم آقا ہو کر اپنے غلاموں کو اپنے برابر نہیں رکھتے جو کہ تمھاری ہی جنس سے ہیں اور تمھارے ہی جیسے انسان ہیں تو خدا بزرگ و برتر کے لیے کیسے ممکن ہے کہ ان مخلوقات کو اپنی خدائی میں حصہ دار بنائے ۔ یا پھر قرآن مجید ایک دوسری تمثیل سے یہ سمجھاتا ہے کہ غیر اللہ کو پکارنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسی کنویں پر جا کر پانی کو پکارنا شروع کر دے ۔ پانی کبھی خود چل کر اس کے پاس نہیں آئے گا۔ قرآن مجید نمرود اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ سناتا ہے جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اس سے فرمایا کہ میرا رب وہ ہے جو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے۔ تو خدا ہے تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا دے ۔ یہ سن کر وہ کافر ششدر رہ گیا۔ یہی غیر اللہ کے عجز کا عالم ہے ۔ قرآن کریم ان جیسی متعدد عام فہم تمثیلوں اور واقعات کے ذریعے سے یہ بتاتا ہے کہ ساری قدرت اور نفع و ضرر کا سارا اختیار تنہا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور غیر اللہ کی حیثیت کچھ بھی نہیں ۔ پھر یہ کیوں کر درست ہے کہ غیر اللہ کی عبادت کی جائے ۔ اللہ کی خدائی اور بادشاہی اور عبادت میں کسی اور کو شریک کیا جائے ۔ اس کے ساتھ یا اسے چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کی جائے ۔

قرآنی بیانات

’’اور کہتے ہیں کہ خدا اولاد رکھتا ہے ۔ اس کی شان ان باتوں سے ارفع ہے بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے ۔ سب اسی کے تابع فرمان ہیں۔ وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو بس اس کے لیے فرما دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے ۔ (البقرہ 2: 117-116)

’’بے شک ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا اللہ تو وہی مسیح ابن مریم ہے ۔ پوچھو، کون اللہ سے کچھ اختیار رکھتا ہے اگر وہ چاہے کہ ہلاک کر دے مسیح ابن مریم کو، اس کی ماں کو اور جو زمین میں ہیں ان سب کو۔ اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ، سب کی بادشاہی۔ وہ پیدا کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے اور اللہ ہر چیز پرقادر ہے ۔(مائدہ 5: 17)

مسیح ابن مریم تو بس ایک رسول ہیں ۔ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرے ہیں اور ان کی ماں ایک صداقت شعار بندی تھیں ۔ دونوں کھانا کھاتے تھے ۔ دیکھو، کس طرح ہم ان کے سامنے اپنی آیتیں کھول کر بیان کر رہے ہیں ۔ پھر دیکھو کہ وہ کس طرح اوندھے ہوئے جا رہے ہیں ۔ کہو کیا تم اللہ کے سوا اس چیز کی بندگی کرتے ہو جو تمہارے لیے کسی نقصان اور نفع پر اختیار نہیں رکھتی اور سننے والا اور جاننے والا تو بس اللہ ہی ہے ۔(مائدہ 5: 76-75)

رات کے اندھیرے اور دن کے اجالے میں جو کچھ  ٹھہرا ہوا ہے ، سب اللہ کا ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے ۔ کہو، اللہ کو چھوڑ کر کیا میں کسی اور کو اپنا سرپرست بنا لوں؟ اس خدا کو چھوڑ کر جو زمین و آسمان کا خالق ہے اور جو روزی دیتا ہے روزی لیتا نہیں ہے؟ کہو، مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں اس کے آگے سرِ تسلیم خم کر دوں (اور تاکید کی گئی ہے کہ کوئی شرک کرتا ہے تو کرے) تو بہرحال مشرکوں میں شامل نہ ہو۔ کہو، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو ڈرتا ہوں کہ ایک بڑے (خوفناک) دن مجھے سزا بھگتنی پڑے گی۔ اُس دن جو سزا سے بچ گیا اس پر اللہ نے بڑا ہی رحم کیا اور یہی نمایاں کامیابی ہے۔ اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے، اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ وہ اپنے بندوں پر کامل اختیارات رکھتا ہے اور دانا اور با خبر ہے ۔   (انعام 6: 18-13)

اور انہوں نے جنوں میں سے خدا کے شریک ٹھہرائے حالانکہ خدا ہی نے ان کو پیدا کیا اور اس کے لیے بے سند بیٹے اور بیٹیاں تراشیں ، وہ پاک اور برتر ہے ان چیزوں سے جو یہ بیان کرتے ہیں ۔ وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے ۔ اس کے اولاد کہاں سے آئی جب کہ اس کی کوئی بیوی نہیں اور اس نے ہر چیز پیدا کی اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔ وہی اللہ تمہارا رب ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی ہر چیز کا خالق ہے تو اسی کی بندگی کرو اور وہی ہر چیز پر نگران ہے۔ اس کو نگاہیں نہیں پاتیں لیکن وہ نگا ہوں کو پالیتا ہے ، وہ بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے ، (انعام 6: 103-100)

اور اللہ مثال بیان فرماتا ہے ایک غلام مملوک کی جو کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا اور اس کی جس کو ہم نے اپنی جانب سے اچھا رزق دے رکھا ہے جس میں سے وہ پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتا ہے ، کیا یہ یکساں ہوں گے؟ شکر کا سزاوار اللہ ہے لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے ۔اور اللہ مثال بیان کرتا ہے دو شخصوں کی جن میں سے ایک گونگا ہے جو کسی چیز پر قادر نہیں ہے اور وہ اپنے آقا پر ایک بوجھ ہے ، جہاں کہیں بھی وہ اس کو بھیجتا ہے وہ کوئی کام درست کر کے نہیں لاتا۔ کیا وہ اور وہ جو عدل کا حکم دیتا ہے اور وہ ایک سیدھی راہ پر ہے دونوں یکساں ہوں گے؟ (نحل 16: 76-75)

وہی (اللہ) دکھاتا ہے تمہیں بجلی جو خوف بھی پیدا کرتی ہے اور امید بھی اور ابھارتا ہے بوجھل بادلوں کو اور بجلی کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتی ہے اور فرشتے بھی اس کے ڈر سے اس کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ بھیجتا ہے بجلی کے کڑکے اور ان کو نازل کر دیتا ہے جن پر چاہتا ہے اور وہ خدا کے باب میں جھگڑتے ہی ہوتے ہیں اور وہ بڑی ہی زبردست قوت والا ہے ۔

حقیقی پکارنا تو صرف اس کو پکارنا ہے ، رہے وہ جن کو یہ اس کے سوا پکارتے ہیں تو وہ ان کی کوئی بھی داد رسی نہیں کر سکتے ۔ ان کو پکارنا ایسا ہی ہے کہ کوئی اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف بڑھائے کہ وہ اس کے منہ تک پہنچ جائے درآنحالیکہ وہ کسی طرح اس کے منہ تک پہنچنے والا نہ ہو۔ ان کافروں کی فریاد محض صدا بصحرا ہو گی۔

اور آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں سب خدا ہی کو سجدہ کرتے ہیں ، خواہ طوعاً خواہ کرہاً۔ اور ان کے سائے بھی صبح اور شام۔ ان سے پوچھو آسمانوں اور زمین کا مالک کون ہے ؟ کہہ دو اللہ! ان سے پوچھو تو کیا اس کے بعد تم نے اس کے سوا ایسے کارساز بنا رکھے ہیں جو خود اپنی ذات کے لیے بھی نہ کسی نفع پر کوئی اختیار رکھتے ہیں اور نہ کسی ضرر پر۔ ان سے پوچھو ، کیا اندھے اور بینا دونوں یکساں ہو جائیں گے! یا کیا روشنی اور تاریکی دونوں برابر ہو جائے گی! کیا انہوں نے خدا کے ایسے شریک ٹھہرائے ہیں جنہوں نے اسی کی طرح خلق کیا ہے جس کے سبب سے ان کو اشتباہ لاحق ہو گیا ہے! بتا دو کہ ہر چیز کا خالق اللہ ہی ہے اور وہ واحد اور سب پر حاوی ہے ۔      (رعد 13: 16-12)

کیا تم نے اس کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے اس کے رب کے باب میں اس وجہ سے حجت کی کہ خدا نے اس کو اقتدار بخشا تھا، جب کہ ابراہیم نے کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے، وہ بولا کہ میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں ۔ ابراہیم نے کہا کہ یہ بات ہے تو اللہ سورج کو پورب (مشرق) سے نکالتا ہے تو اسے پچھم (مغرب) سے نکال دے، تو وہ کافر یہ سن کر بھونچکا رہ گیا اور اللہ ظالموں کو راہ یاب نہیں کرتا۔ (البقرہ 258:2)