Take a fresh look at your lifestyle.

منزل ۔ ابویحییٰ

زندگی ایک سفر ہے اور موت اس سفر کی فیصلہ کن منزل ہے۔ یہ ہر ڈوبتے سورج اور ہر ڈھلتی شام کا پیغام ہے۔ یہ ہر جاتی شب اور آتی صبح کا پیام ہے۔ یہ ہربکھرتی شفق اور ہر پھیلتی تاریکی کی یاددہانی ہے۔ یہ چاند کی ہر گھٹتی بڑھتی رات کی صدا ہے۔ یہ شب و روز کی داستان، بدلتی رتوں کی کہانی اور ماہ و سن کے قصے کا آخری سبق ہے۔

مگر انسان کائنات کے اس خاموش پیغام کو سننے کے لیے بہرا، اس واضح سبق کو دیکھنے کے لیے اندھا بنا رہتا ہے۔ سو انسانوں کو جھنجھوڑنے کے لیے موت کو عام کر دیا گیا ہے۔ مگر انسان پھر بھی ہوش میں نہیں آتے۔ ہوس زر، حب دنیا، مال و جاہ کی دوڑ ختم ہوکر نہیں دیتی۔

مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کائنات کا ہر ذرہ یہ بتا رہا ہے کہ اس پر حکمت کائنات میں انسان نہ دشت اتفاق سے آیا ہے اور نہ اس کا مقدر بحرِ عدم کی موجوں میں فنا ہوجانا ہے۔ انسان ایک حکیم و علیم ہستی کی تخلیق ہے۔ وہ ہستی عزیز و قدیر بھی ہے۔ وہ ایک روز انسان کو دوبارہ جی اٹھائے گی۔ اس روز انسان دیکھ لے گا۔ رائی کے دانے کے برابر عمل کو بھی دیکھ لے گا۔ اپنی تنہائی اور اپنے رازوں کو سب کے سامنے بے نقاب ہوتا دیکھ لے گا۔

یہ دن بڑی رسوائی کا ہوگا۔ ان کے لیے ہی نہیں جنھوں نے خدا کو پچھلی دنیا میں نہیں مانا۔ ان کے لیے بھی جنھوں نے خدا کو مانا مگر اس کی کتاب کو اپنا رہنما بنانے سے انکار کر دیا۔ وہ اپنے تعصبات کے اسیر رہے۔ اپنے فرقوں کے غلام بنے رہے۔ اپنے خواہشات کے پیرو رہے۔

یہ دن بڑی عزت کا ہوگا۔ اپنے ہر تعصب سے بلند ہوکر سچا ایمان لانے والوں کے لیے۔ اپنی خواہش سے بلند ہوکر صبر اور تقویٰ کی راہ اختیار کرنے والوں کے لیے۔ جنت ایسے ہی خوش بختوں کا انجام ہے۔ فردوس ایسے ہی بلند حوصلہ لوگوں کا انعام ہے۔