Take a fresh look at your lifestyle.

خدا کی معرفت کا ایک نیا تجربہ ۔ ابویحییٰ

آج کل میں اپنے گھر میں کچھ تعمیراتی تبدیلیاں (Renovation) کروا رہا ہوں۔ اس عمل میں مجھے کئی تجربات ہو رہے ہیں۔ لیکن ان میں سب سے بڑا تجربہ خدا کی معرفت کا تجربہ ہے۔ تعمیر و تخلیق کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ اس کے لیے سب سے پہلے کوئی خاکہ ذہن میں ترتیب پانا چاہیے۔ پھر اس کو روبہ عمل کرنے کے لیے طرح طرح کی صلاحیتیں چاہیے ہوتی ہیں۔ ایک گھر ہی کو لے لیجیے۔ الیکٹریشن، پلمبر، مزدور، مستری، کارپینٹر، رنگ کرنے والے اور ان جیسے بہت سے لوگ ہیں جن کی صلاحیتں اور توانائیاں مل کر ایک گھر کو تخلیق کرتی ہیں۔ پھر بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ہم ایک خاکہ بناتے ہیں، مگر جب وہ عمل میں آنے لگتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ حالانکہ عام طور پر ایسی بنی ہوئی چیز پہلے ہی سے ہمارے سامنے موجود ہوتی ہے۔ یا کسی چیز کے بننے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ بہتر چیز بنائی جاسکتی تھی۔ یا بنانے والے اپنے تجربے کے باوجود چیز اچھی نہیں بنا پاتے۔

لیکن اللہ تعالیٰ جو اس کائنات کے بادشاہ ہیں انہوں نے اس پوری کائنات کو پہلے سے موجود کسی نمونے یا خاکے کے بغیر بنایا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ جو کچھ ہمیں اس دنیا میں نظر آتا ہے اس کے لیے کوئی تعمیری سامان پہلے سے موجود نہ تھا۔ اس دنیا میں جھرنے، آبشاریں، نہریں، کنویں، تالاب دریا اور سمندر موجود ہیں، مگر پانی موجود نہ تھا۔ اس دنیا میں شیر اور چیتے جیسے درندے، گائے اور بکری جیسے مویشی، گھوڑے اور گدھے جیسی سواریاں، کبوتر اور عقاب جیسے پرندے، سانپ اور بچھو جیسے حشرات اور گوشت اور دودھ دینے والے ان گنت زمینی اور سمندری مفید حیوانات موجود ہیں، مگر ان کی تخلیق کے لیے نہ کوئی نمونہ تھا اور نہ کو ئی ساز و سامان۔ اس دنیا میں پہاڑ، سورج، چاند، ستارے، درخت، زمین، آسمان اور ان کے بیچ میں بے شمار تخلیقات ہیں جو بالکل منفرد اور انوکھی ہیں مگر خدا نے انہیں بغیر کسی کے مشورے اور بغیر کسی خام مال کے تخلیق کر دیا۔

پھر بنانے والے نے جو بنایا تنہا بنایا۔ وہی انجینئر ہے، وہی منصوبہ ساز ہے، وہی مصور اور ڈیزائنر ہے، وہی حساب کتاب رکھتا ہے اور وہی اعداد و شمار جمع کرتا ہے۔ اس پورے عمل میں جس وقت جن وسائل اور صلاحیتوں کی ضرورت ہوئی، وہ خدا نے بغیر کسی کی مدد کے تنہا فراہم کر دیے۔ ایک انسان کے لیے تنہا ہونا کمزوری کی علامت ہے، مگر خدا کی عظمت یہی ہے کہ سب کچھ اس نے تنہا کیا ہے۔

آخری بات یہ کہ اس نے جو بنایا اس میں کوئی عیب یا کمی نہیں۔ اس کی کسی تخلیق میں کوئی بہتری نہیں لائی جاسکتی نہ اس سے بڑھ کر کوئی نمونہ تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ اس بات کو اگر کوئی سمجھنا چاہے تو غور سے انسان کی اپنی بنائی ہوئی اشیاء کو دیکھے۔ اسے معلوم ہوگا کہ انسان کی ہر تخلیق دراصل کائنات میں موجود پہلے سے کسی مخلوق یا کسی نمونہ کی ایک بھونڈی اور کمزور نقل ہے۔ مثلاً ہوائی جہاز پرندوں کی، کشتیاں اور آبدوزیں مچھلیوں کی، ریل گاڑیاں اور موٹر کاریں حشرات اور حیوانی سواریوں کی اور کمپیوٹر انسانی دماغ کی ایک نقل ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ ہم خدا کی ایک عظیم کائنات میں رہتے ہیں۔ اس کی سب سے زیادہ خوبصورت تخلیق ہمارا یہ گھریعنی ہماری زمین ہے اور اس کی سب سے شاندار اور عجیب مخلوق یہ انسان ہے ۔مگر نہ ہم زمین میں اس کی عظمت کو سراہتے ہیں اور نہ اپنے وجود میں موجود اس کی نشانیوں کو دیکھ کر اس کی حمد بیان کرتے ہیں۔ حالانکہ ہم میں سے ہر شخص جب کچھ تعمیر یا تخلیق کرتا ہے تو اپنی تعریف سننا چاہتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ تخلیق و تعمیر کا عمل لازماً اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ اسے سراہا جائے، مگر پھر بھی ہم اس ہستی کی حمد و ثنا کو زندگی کا مقصد نہیں بناتے جس نے یہ کائنات بغیر کسی نمونہ اور بغیر کسی کی مدد کے بنائی ہے اور جو آنے والی دنیا میں ہمارے لیے جنت کی عظیم نعمت تعمیر کر رہا ہے۔

جو لوگ خدا کی اس دنیا میں خدا کی حمد کرتے ہیں وہی لوگ ہیں جو آخرت میں خدا کی بے مثال نعمت یعنی جنت میں بسائے جائیں گے۔ جنت کی قیمت کچھ نہیں بس بن دیکھے رب کی حمد کرنا اور اس کی مان کر زندگی گزارنا ہے۔ کتنی معمولی مگر کتنی فطری قیمت ہے یہ، مگر ہم یہ بھی نہیں دے پاتے۔