Take a fresh look at your lifestyle.

خلائی چٹان اور قیامت ۔ ابویحییٰ

اپافس (Apophis) ایک خلائی چٹان کا نام ہے جو اس وقت میڈیا میں ایک نمایاں خبر بن گئی جب دسمبر 2004 کے مہینے میں ماہرین فلکیات نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ 13 اپریل 2029 کو اس چٹان کے زمین سے ٹکرانے کا امکان ہے۔ اس خبر نے ساری مہذب دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ ہزار فٹ چوڑی ایسی کسی چٹان کے زمین سے ٹکرانے کا مطلب سیکڑوں ایٹم بموں کے برابر تباہی۔ کروڑوں لوگوں کا مرنا اور پوری دنیا کا نظام معطل ہونا تھا۔

تاہم بعد میں زیادہ درست مشاہدات نے اس امکان کو رد کر دیا۔ ناسا کی رپورٹس کے مطابق یہ چٹان 13 اپریل 2029 کے دن زمین کے بہت قریب یعنی بیس ہزار میل کے فاصلے سے گزرے گی، لیکن اس کا زمین سے ٹکرانے کا امکان نہیں ہے۔ لیکن یہ فاصلہ اتنا کم ہے کہ اُس دن لوگ اسے اپنی آنکھوں سے زمین کے اوپر سے گزرتے ہوئے دیکھیں گے۔ انٹرنیٹ پر موجود وڈیو پر اگر اس منظر کو دیکھا جائے تو لگے گا کہ بیس ہزار میل کے جس فاصلے سے یہ چٹان زمین سے گزرے گی وہ خلائی معیارات پر بال برابر فاصلہ بھی نہیں ہے۔ گویا انسانیت کو ایک عظیم تباہی سے بال برابر فاصلے سے بچا لیا گیا۔

آسمانی صحیفوں میں قیامت سے متعلق جو بیانات آئے ہیں، ان سے یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ قیامت کسی آسمانی آفت سے جنم لے گی،(مکاشفہ9:20)، (الذاریات22:51)۔ موجود سائنسی معلومات کے مطابق اس کی ایک ممکنہ شکل ایسی ہی کسی خلائی چٹان کا زمین سے ٹکرانا ہے جس سے ہونے والی تباہی زمین پر موجود تمام مخلوقات کو ختم کر دے گی۔ ڈائناسور اور زمین کی ستر فی فیصد انواع کو جس چٹان نے ختم کیا تھا وہ محض دس سے پندرہ کلومیٹر لمبی تھی۔ نظام شمسی میں اس سے کہیں زیادہ بڑی چٹانیں گھوم رہی ہیں اور جس روز اللہ کا اذن ہوگا، ان کا رخ زمین کی طرف ہوجائے گا۔

بہت سے سائنسدانوں کے نزدیک ایسی کسی چٹان کا زمین سے ٹکرانا ایک یقینی امر ہے اور یہ اگر کا نہیں کب کا معاملہ ہے۔ یعنی اس بات کا وقت تو آگے پیچھے ہوسکتا ہے، لیکن ایسا ہونا لازمی ہے۔ مریخ اور دیگر مقامات پر خلائی مشن بھیجے جانے کی ایک وجہ زمین کا متبادل تلاش کرنا بھی ہے۔ انسانی دماغ جو انسانی شخصیت کی اصل ہے، اسے کسی دھاتی قالب میں منتقل کرنے کے جو مختلف پروجیکٹ دنیا میں جاری ہیں، ان کے پیچھے جہاں موت کو شکست دینے کی خواہش ہے وہیں اس کا مقصد انسان کے لیے ایسا قالب تیار کرنا ہے جو دیگر سیاروں کے ہر طرح کے سخت ماحول میں رہ سکے۔

دورِ جدید میں اہل مغرب اور دیگر جدید اقوام اگر اس رخ پر سوچ رہی ہیں تو اس کے پیچھے انکار خدا کی وہ سوچ ہے جس کے مطابق یہ کائنات بخت و اتفاق کا ایک کارخانہ ہے جہاں انسان خوش قسمتی سے آگیا ہے۔ یہ مادی دنیا آخری حقیقت اور یہ زندگی واحد سچائی ہے۔

دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ بہت جلد اللہ تعالیٰ اس دنیا کو ختم کرنے والے ہیں۔ آسمانی صحائف میں قیامت سے پہلے تین بڑی پیش گوئیاں کی گئی تھیں۔ ایک حضرت عیسیٰ کے آنے، دوسرے حضور کی آمد کی اور تیسری یاموج ماجوج کے دنیا پر غالب ہوجانے کی۔ پہلی پیش گوئی انجیل کے نزول کے ساتھ پوری ہوگئی اور انجیل میں صرف دو پیش گوئیاں رہ گئیں۔ یعنی حضور کی آمد اور یاجوج ماجوج کا غلبہ۔ قرآن کے نزول کے ساتھ دوسری پیش گوئی بھی پوری ہوگئی اور قرآن میں صرف یاجوج ماج کی پیش گوئی رہ گئی۔ موجودہ دور میں مغربی اقوام کے غلبے کے ساتھ یہ تیسری پیش گوئی بھی پوری ہوچکی ہے۔ اب صرف قیامت کا آنا رہ گیا ہے جو کسی وقت بھی آسکتی ہے۔

خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو قیامت کے آنے سے قبل خود کو قرآن کا مطلوب انسان بنا لیں۔ بدنصیب ہیں وہ لوگ جو قیامت کی اتنی صریح نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود غفلت میں رہیں۔