Take a fresh look at your lifestyle.

جنت میں موسیقی، مرد و خواتین کا سامنا اور رقص ۔ ابویحییٰ

[یہ خط اس سوال کے جواب میں لکھا گیا ہے کہ مصنف نے اپنی کتاب میں غیر شرعی چیزوں اور مغربی تہذیب کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔]

محترمی و مکرمی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

میں بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے یہ سوالات براہ راست مجھ سے کرلیے ہیں۔ مگر قبل اس کے کہ میں آپ کے سوالوں کا جواب دوں عرض یہ کرنا ہے کہ آپ میری کتاب ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ کا اول تا آخر مطالعہ کرلیں۔ ڈھائی تین سو صفحات کی اس کتاب کا مقصد کیا آپ کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ رقص و موسیقی کی تلقین کی جائے اور مغربی تہذیب کو عام کیا جائے؟ دل پر ہاتھ رکھ کر پور ی دیانت داری سے بتائیے کہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ کے ذہن میں کیا یہی احساسات پیدا ہوئے تھے یا پھر اللہ اور آخرت پر یقین پختہ ہوا تھا، اتباع رسول کی خواہش پیدا ہوئی تھی اور جنت میں جانے اور جہنم سے بچنے کا داعیہ پوری قوت سے پیدا ہوا تھا۔

میں عرض کرتا ہوں کہ چند استثنائی لوگوں کو چھوڑ کر سو فیصد لوگ جنھوں نے اس کتاب کو پڑھا ان میں یہی احساسات پیدا ہوئے۔ باقی ناقدین کا معاملہ یہ ہے کہ جب تک ان کے تعصبات بیدار نہیں ہوئے تھے ان کی رائے بھی یہی تھی اور کتاب پر توصیفی تبصرے انھوں نے خود کیے تھے۔ مگر جب تعصب کی آنکھ کھلی تو علم و بصیرت کی آنکھ بند ہوگئی۔ اطمینان رکھیے ایسی بند آنکھوں کو قیامت کا زلزلہ ہی کھولے گا۔

تعصب میں مبتلا شخص منفی سوچ کے تحت حقائق کو دیکھتا ہے۔ ایسا شخص پہلے مرحلے پر طے کرلیتا ہے کہ اسے صرف کیڑے نکالنے ہیں، ہر بات کو بدترین انداز سے لینا اور اسی حیثیت سے لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہے، بدگمانی کرنی اور نیت میں خرابی ہی دریافت کرنی ہے۔ یہ رویہ جب مستشرقین اپنے بغض و عناد کی بنا پر سیرت مبارکہ میں اختیار کرتے ہیں تو ہم سب چیخ پڑتے ہیں، مگر اپنی آنکھوں کا یہ شہتیر کسی کو نظر نہیں آتا۔ اس رویے کہ ساتھ شاید یہ بدنصیب اس دنیا میں اپنے چند ذہنی لونڈی غلاموں پر علمیت کا رعب جھاڑ کر انھیں بدگمان کرنے میں کامیاب ہوجائیں، مگر مسلمہ اخلاقی اقدار کو پامال کرکے آخرت میں اپنی پکڑ کا جو انتظام کر رہے ہیں، کاش انھیں اس کا کچھ احساس ہوجائے قبل اس کے کہ واقعتا ان پر اللہ کی پکڑ آجائے۔

اب آئیے ان معاملات کی طرف جن پر آپ نے سوالات اٹھائے ہیں۔ یعنی جنت کی زندگی میں رقص، موسیقی کا بیان اور شرعی پردے کی نفی۔ اصولاً تو جس شخص نے کتاب سمجھ کر پڑھی ہے اس کے لیے یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ کیونکہ جو چیزیں دینی تعلیمات میں بطور برائی کے بیان ہوئی ہیں یعنی فواحش و منکرات اور ان کے فروغ کا سبب بننے والی چیزیں اور رویے، ان پر میں نے کتاب میں جابجا سخت تنقیدیں کی ہیں۔ اسی کی روشنی میں میرے اصل نقطہ نظر کو سمجھنا چاہیے تھا۔

دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی علم کی روایت سے واقف ہر صاحب علم کو یہ بات معلوم ہے کہ یہ کوئی اصولی چیزیں نہیں بلکہ فروعی چیزیں ہیں۔ خود ناول میں یہ انتہائی ضمنی طور پر بیان ہوئی ہیں۔ آخرت میں ان کی موجودگی پر اہل علم کی کیا رائے ہے، اسے جانے دیجیے، دنیا میں بھی اس حوالے سے بڑے بڑے اہل علم کی اختلافی آراء موجود ہیں۔ کتاب کے اصل موضوع سے اندھا بن کر ایسی اختلافی، فروعی اور ضمنی چیزوں پر پروپیگنڈا مہمیں چلانا، نیت اور ایمان پر حملے کرنا جیسی بے ہودگیوں کا کیا اخلاقی اور دینی جواز ہے۔

تیسری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ اسی طرح ان چیزوں کو جنت کے پاکیزہ پس منظر میں پیش کرنے میں کیا مسئلہ ہے جب کہ خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور زندگی میں ان کا ذکر موجود ہے۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ میں جنت کے حوالے سے کوئی وضاحت پیش کروں میں صرف یہ بتانا چاہوں گا کہ اس معاملے میں میرا ماخذ سیرت طیبہ کا وہ نقشہ رہا ہے، جنت کا ماحول جس سے زیادہ پاکیزہ نہیں ہوسکتا اور جو ہر طرح کے افراط و تفریط اور رہبانی رویوں سے پاک ہے۔ ذیل میں وہ احادیث مبارکہ نقل کر رہا ہوں جن سے میرا ماخذ اور موقف دونوں واضح ہوجائیں گے۔

’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے۔ اس موقع پر دو(مغنیہ) لونڈیاں جنگ بعاث کے گیت گا رہی تھیں۔ آپ بستر پر دراز ہوگئے اور اپنا رخ دوسری جانب کرلیا۔ (اسی اثنا میں) حضرت ابوبکر گھر میں داخل ہوئے۔ (گانے والیوں کو دیکھ کر) انھوں نے مجھے سرزنش کی اور کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ شیطانی ساز(کیوں)؟ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوئے اور فرمایا: انھیں (گانا بجانا) کرنے دو۔ پھر جب حضرت ابوبکر دوسرے کام میں مشغول ہوگئے تو میں نے ان (گانے والیوں کو چلے جانے کا) اشارہ کیا تو وہ چلی گئیں۔ یہ عید کا دن تھا۔‘‘، (بخاری، رقم 907)

یہ موسیقی کے معاملے میں صرف ایک روایت ہے، اس طرح کی اور روایات کی تفصیل دیکھنی ہے تو امام شوکانی کی نیل الاوطار میں دیکھی جاسکتی ہے۔ رقص کے معاملے دو روایات ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حبشہ کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ناچ رہے تھے اور یہ گا رہے تھے: محمد صالح انسان ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ انھوں نے کہا: یہ کہہ رہے ہیں: محمد صالح انسان ہیں۔ (احمد بن حنبل، رقم12542)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں: ایک مرتبہ عید کے روز حبشی مسجد میں رقص کا مظاہرہ کرنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا۔ میں نے آپ کے شانے پر سر رکھا اور ان کا کرتب دیکھنے لگی۔ (کافی وقت گزرنے کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے منع نہیں فرمایا) یہاں تک کہ میں خود ہی انھیں (مسلسل) دیکھ کر تھک گئی۔ (مسلم، رقم 892)

سوال یہ ہے کہ دنیا میں خوشی اور تفریح کے پہلو سے ان چیزوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں روکا تو جنت کی پاکیزہ بستی میں جہاں صرف پاکیزہ نفس روحیں ہوں گی، وہاں ممانعت کا کیا سوال ہے؟ اس حوالے سے اعتراض کا کیا جواز ہے؟ اچھا ہوا میں نے جنت کی شراب کا ذکر نہیں کیا، ورنہ یہ لوگ اس پر بھی آسمان سر پر اٹھا لیتے کہ دیکھو یہ شخص جنت میں بھی مغربی ناؤنوش کی تلقین کر رہا ہے۔ بہرحال پھر بھی کسی کو مہم چلانی ہے میری کتاب کے بجائے بخاری اور مسلم کے خلاف چلائے جن کتابوں میں یہ احادیث موجود ہیں۔

باقی رہا پردے کا مسئلہ تو وہاں بھی یہی سوال ہے کہ کیا جنت میں بدنیت، بدنگاہ اور بدکار لوگ موجود ہوں گے یا پاکیزہ نفس لوگ۔ کیا جنت کے پاکیزہ لوگوں کے لیے اجنبی خواتین کے بارے میں وہی جذبات نہیں پیدا کر دیے جائیں گے جو اپنی ماؤں بہنوں کے لیے ہم آج محسوس کرتے ہیں؟ اسی پاکیزگی کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی قریبی اعزاء و متعلقین (خیال رہے کہ اس لسٹ میں سب لوگ محرم نہیں) کے سامنے خواتین کے لیے یہ جائز کر دیا ہے کہ پوری زیب و زینت کے ساتھ آسکتی ہیں، (النور31:24)۔ عقل کہتی ہے کہ یہی جنت میں ہونا چاہیے، اگر یہ نہیں کیا جائے گا تو مجھے کہنے دیجیے کہ وہ جگہ جنت نہیں ہوسکتی جہاں انسان سکون سے رہے کیونکہ پھر تو انسان کو ہر وقت اپنے نفس کی نگرانی کی وہی مشقت اٹھانی پڑے گی جس سے ہم آج دوچار ہیں۔

جنت کی زندگی کے بارے میں میرا یہی استنباط ہے جس کی روشنی میں میں نے جنت کے ذکر میں خواتین اور مردوں کے اختلاط کے موقع پر پردے کی شرط نہیں لگائی، لیکن حیا اور پاکیزگی کی وہ شرط ساتھ لگا دی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بھی لگائی ہے۔
’’۔۔۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے قلوب اس طرح پاکیزہ کر دیے تھے کہ نگاہوں میں آلودگی اور دلوں میں خیانت کا تصور بھی نہیں رہا تھا۔ ہر مرد اور ہر عورت خوبصورتی مگر پاکیزگی کے احساس میں زندہ تھا۔ ‘‘ّ(258)

سوال یہ ہے کہ کسی کو پاکیزگی کی شرط یہاں قبول نہیں تو پھر اسے جنت میں شراب طہور پر بھی پابندی لگوانی چاہیے جس کا ذکر بار بار قرآن مجید میں آیا ہے۔ تاہم میرے استنباط کو گولی ماریے۔ اس بات کو بھی جانے دیجیے کہ جمہور اہل علم کی پردے کے بارے میں کیا رائے ہے۔ اسے بھی چھوڑ دیجیے کہ صحابہ میں سے ابن عمرؓ اور ابن عباسؓ، تابعین میں سے مجاہد، عکرمہ، ضحاک، سعید بن جبیر، ائمہ میں سے امام احمد کو چھوڑ کر ائمہ ثلاثہ، ابن رشد کے مطابق جمہور علما اور پھر معاصرین میں سے یوسف القرضاوی اور امام البانی چہرے کے اس پردے کے قائل ہی نہیں جسے یہ حضرات ایک مسلمہ حکم کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ میں کہتا ہو ں کہ آپ کو اس موقف کو نہیں ماننا تو بالکل نہ مانیں مگر یہ تو مانیں کہ خواتین کا چہرہ نظر آجانا کسی پہلو سے کوئی فحاشی یا عریانی کا معاملہ نہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ حج جیسی عظیم عبادت کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں خواتین کو نقاب کرنے سے منع کیا ہے،(بخاری ،رقم1838)۔
کیسے ممکن ہیں کہ حج کے موقع پر ایک فعل حرام (چہرہ کھولنا) کو لازمی کر دیا جائے؟ یہی نہیں بلکہ امام بخاری، امام مسلم اور دیگر ائمہ محدثین یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ حج کے موقع پر قبیلہ بنی خثعم کی ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ پوچھنے آئی جو بہت خوبصورت تھی۔ آپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے آپ کے چچا زاد بھائی فضل عباس جو ایک نوجوان تھے اسے گھور کر دیکھنے لگے تو آپ نے فضل بن عباس کا چہرہ اپنے ہاتھ سے دوسری طرف پھیر دیا۔ مگر اس موقع پر آپ نے اس خاتون کو پردے کی کوئی تلقین نہ کی۔ یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ۔ جو ناجائز تھا اس سے روک دیا۔ جو حرام نہیں تھا، اس پر خاموش رہے۔

میں کہتا ہوں کہ میرا نقطہ نظر کسی کو نہیں ماننا تو نہ مانیں، جو موقف اختیار کرنا ہے کریں، پردہ کرنا ہے کیجیے، اس کی تلقین ہے وہ بھی کیجیے، مگر اس طرح کی ضمنی اور ثانوی چیزوں کی بنیاد پر کسی کو بدنام کرنے، اسے مغربیت کو فروغ دینے جیسے الزامات پر مبنی مہم چلانے کا کیا اخلاقی جواز ہے؟ جس چیز کا معاملہ دنیا میں یہ ہے، جنت کی پاکیزہ بستی میں جہاں کسی بدکاری اور بدنگاہی کا کوئی امکان نہیں وہاں اس کے حوالے سے ہدایت عام کرنے والی ایک کتاب کے خلاف مہم چلانے کا کیا دینی جواز ہے؟

باقی جن آیات کا آپ نے حوالہ دیا ہے اگر آپ ان سے جنت کی خواتین کے لیے شرعی پردہ اخذ کرتے ہیں تو مجھے ایسا کرنے والے کی عقل پر ماتم کرنے کا دل چاہتا ہے۔ میرے بھائی یہ آیات صرف یہ بتا رہی ہے کہ اہل ایمان کو جو حوریں ملیں گی وہ باحیا اور باعصمت ہوں گی۔ مردوں کے ذوق، پسند اور سہولت کے ساتھ موجود ہوں گی۔ یہ آیات زبان و بیان کا شاہکار ہیں جس میں مرد و زن کے تعلق اور پسند و ترجیحات کو اشارے، کنارے، تشبیہ اور تمثیل کے اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جنسیت پر مبنی اس تعلق کے بارے میں یہ قرآن مجید کے شایان شان نہیں تھا کہ وہ کھل کر گفتگو کرتا۔ چنانچہ ایجاز سے کام لیا گیا۔ مگر اس ایجاز سے شرعی پردے کا جو مفہوم آپ نکال رہے ہیں وہ بلاشبہ قابل داد ہے۔ غور فرمائیے حضور کہ حور مقصورات فی الخیام (خیموں میں ٹھیرائی ہوئی حوریں) سے خواتین کے شرعی پردے کا قانون جس منطق کے تحت آپ نکال رہے وہ تو وہاں سے نہیں نکلتا۔ مگر اس احمقانہ منطق سے یہ بات ضرور نکلتی ہے کہ آپ مرد لوگ تو جہاں چاہیں جنت میں گھومتے اور مزے کرتے رہیں البتہ آپ کی خواتین کو مستقل طور پر خیموں میں بند کر دیا جائے گا۔ اللہ نے جنت کو مقام نعمت بنایا تھا۔ مگر آپ لوگوں نے ہماری بہنوں کے لیے اسے بھی قید خانے میں تبدیل کر دیا ہے۔ باقی اگر اس آیت کو سمجھنا مقصود ہے تو مجھ سے رجوع کیجیے گا۔ میں اِس دور میں پردے کے سب سے بڑے حامی عالم دین کی تفسیر کا نام بتا دوں گا۔ وہ بھی یہاں سے جنت کا پردہ جیسی کوئی چیز نہیں نکالتے۔ البتہ ان کی تفسیر سے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ اللہ تعالیٰ یہاں اصل میں کیا کہہ رہے ہیں۔

بہرحال آپ کے سوالات کے حوالے سے یہ میری گزارشات ہیں۔ مگر اصل گزارش یہ ہے کہ کتاب کو اس کے اصل پس منظر میں پڑھیے۔ اصل موضوع یعنی دعوت توحید و آخرت پر کوئی اعتراض ہے تو بتائیں۔ ورنہ میری اس کتاب کی کیا اوقات ہے، منفی انداز فکر کے ساتھ قرآن پڑھا جائے یا حدیث، لوگ وہاں سے بھی منفی چیزیں دریافت کرلیتے ہیں۔

والسلام
ابویحییٰ