Take a fresh look at your lifestyle.

انسانی گوشت کھانے والے لوگ ۔ ابویحییٰ

کچھ عرصے قبل میڈیا میں ایک واقعہ رپورٹ ہوا۔ یہ دو بھائیوں کا تھا جو رات کے وقت تازہ قبروں سے مردہ لاشوں کو نکال کر اپنے گھر لے آتے اور پھر ان مردہ انسانوں کا گوشت پکا کر کھاتے تھے۔ پولیس نے ان کو گرفتار کرلیا اور میڈیا پر ان کی تصویریں نشر ہوئیں۔ ساتھ ہی ان کا گھر، مردہ انسانوں کا گوشت پکانے کے برتن وغیرہ سب دکھائے گئے۔ یہ سب کچھ اتنا مکروہ تھا کہ دیکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی حالت غیر ہوگئی۔ کراہیت کے مارے لوگوں کا برا حال ہو گیا۔ لوگ پوچھنے لگے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص انسانی گوشت کھانے جیسا مکروہ عمل کرسکے۔ مگر عجیب بات ہے کہ ایک اور پہلو سے ہم سب انسانی گوشت بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ تنہائی میں چھپ کر نہیں بلکہ اپنی مجلسوں میں سب کے سامنے کھاتے ہیں ۔ مگر نہ ہمیں کراہیت آتی ہے اور نہ کوئی دوسرا ہی ہمیں منع کرتا ہے۔ یہ اجتماعی گوشت خوری غیبت کرنے کا وہ عمل ہے جسے قرآنِ مجید نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے جیسا مکروہ عمل قرار دیا ہے۔

قرآنِ مجید نے کمالِ بلاغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیبت کرنے کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا ہے۔ اس سے نہ صرف غیبت کے عمل کی شناعت واضح ہوتی ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ غیبت کیا ہے۔ غیبت کسی کے پیٹھ پیچھے اس کے عیب نکالنے کا عمل ہے جب وہ اپنے دفاع کے لیے موجود نہ ہو۔ یہ تشبیہ بتاتی ہے کہ جس طرح کسی مردے کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ جب اس کا گوشت جسم سے کاٹا جائے تو وہ اپنا دفاع کرسکے ٹھیک اسی طرح غیبت کرنے والا دوسرے مسلمان کے عیب اس کے پیچھے بیان کر رہا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اس موقع پر اپنا دفاع کرنے کے لیے موجود نہیں ہوتا اور اس کا سماجی وجود گویا کہ ایک بے جان لاش کی طرح پڑا ہوتا ہے جسے غیبت کرنے والا بے رحمی سے بھنبھوڑ رہا ہوتا ہے۔

غیبت کی اس واضح تعریف کے بعد بعض عملی سوالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ جو برائی بیان کی جا رہی ہے وہ واقعتاً اُس شخص میں پائی جاتی ہو تو اُسے بیان کرنے میں کیا خرابی ہے؟ دوسرے یہ کہ اگر وہ شخص اس برائی کو برا نہ سمجھتا ہو پھر بھی کیا یہ غیبت ہے؟ ان دونوں سوالوں کے جواب ہمیں ایک صحیح روایت میں اس طرح ملتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ سے پوچھا کہ جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ اللہ اور اُس کا رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے کہ اُسے ناگوار گزرے۔ عرض کیا اگر میرے بھائی میں واقعتا وہ عیب پایا جاتا ہو؟ فرمایا: عیب بیان کرنا ہی غیبت ہے، اگر وہ عیب اُس میں نہ ہو تو تم نے اُس پر بہتان لگا دیا۔‘‘،(مسلم رقم:2589)

معلوم ہوا کہ عیب بیان کرنا ہی غیبت ہے، اگر عیب واقعی میں موجود نہ ہو لیکن بیان کیا جائے تو بہتان بن جائے گا جو زیادہ بڑا گناہ ہے۔ اسی طرح اس روایت سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ ایک شخص کسی عیب یا برائی کو برا ہی نہیں سمجھتا بلکہ یہ اس کے نام اور شخصیت کا لازمی حصہ بن گئی ہے تب بھی یہ غیبت نہیں۔ جیسے کسی کو عام حالات میں موٹا یا کالیا کہہ دیا جائے تو وہ برا مانے گا۔ لیکن بعض لوگوں کی پہچان کے لیے اس طرح کے لفظ ان کے نام کا حصہ بن جاتے ہیں جسے وہ خود بھی برا نہیں سمجھتے۔ چنانچہ ان الفاظ سے کسی کا ذکر کرنا غیبت نہیں ہے۔

اس ضمن کا ایک آخری اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا برائی بیان کرنا ہر حال میں ممنوع ہے یا اس سے کوئی استثنا بھی ہے۔ اس سوال کا جواب قرآن مجید یوں دیتا ہے:
’’اللہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ کسی کا ذکر برائی کے ساتھ کیا جائے، سوائے اس شخص کے جس کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔‘‘،(نساء:4)
اس آیت میں غیبت کا ایک استثنا یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر کسی شخص پر ظلم ہوا ہے تو بہرحال اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی روداد بیان کرے اور ظاہر ہے جس نے ظلم کیا ہے اس کا ذکر برائی کے ساتھ بیان ہو گا۔ یہاں ظلم کا ایک معاملہ بیان ہوا ہے مگر اس سے یہ اصول نکلتا ہے کہ جب عیب جوئی کا مقصد کردار کشی یا مزے لینا نہ ہوبلکہ واقعتا اپنے آپ کو یا دوسروں کو کسی شخص کے ظلم و زیادتی اور برائی سے بچانا یا کوئی اور مثبت بات مقصود ہو تو بھی یہ غیبت نہیں رہتی۔ مثلاً ایک دکاندار کم تولتا ہے تو دوسرے لوگوں کو اس کی اس برائی سے مطلع کر کے انھیں اس کے ظلم سے بچانا چاہیے۔ یا کسی نزاع میں گواہی کے موقع پر صحیح بات بیان کرنی چاہیے چاہے وہ کسی کی برائی ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح رشتہ وغیرہ کے موقع پر اگر کسی کے بارے میں دریافت کیا جائے تو سچی بات بتا دینی چاہیے، چاہے وہ کسی کا عیب ہی کیوں نہ ہو۔

یہ اور ان جیسے دیگر کئی امور ایسے ہیں جہاں کسی کی برائی بیان کرنے کا اصل مقصد اپنی بزم آارئی کی لذت کے لیے دسترخوان پر کسی کے سماجی کردار کا گوشت چننا نہیں ہوتا۔ نہ کسی کی کردار کشی کی نیت ذہن میں ہوتی ہے، نہ مزے لینا مقصود ہوتا ہے اور نہ گفتگو برائے گفتگو کی عادت ہوتی ہے۔ بلکہ کسی کو برائی سے بچانا، ظلم و زیادتی کو بیان کرکے انصاف یا مشورہ کا طلبگار ہونا، کسی تحقیق طلب امر میں سچائی بیان کرنا وغیرہ مقصود ہوتا ہے۔ اس میں بھی ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے کہ نہ اندازے سے بات کی جائے اور نہ سنی سنائی بات کو بلا تحقیق آگے بڑھایا جائے۔ بلکہ اگر کسی کی متعین برائی یقینی علم یا واضح قرائن کی بنیاد پر علم میں آئے تبھی اسے سامنے لانا چاہیے۔