Take a fresh look at your lifestyle.

فار گرانٹڈ ۔ پروفیسر محمد عقیل

زندگی میں بے شمار نعمتیں ہمیں بن مانگے مل جاتی ہیں۔ ہم ان کے لئے نہ تو سوچتے، نہ محنت کرتے، نہ پریشان ہوتے اور نہ ہی کوئی تگ و دو کرتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ ہماری جھولی میں ڈال کر دے دی جاتی ہیں۔ اس میں سر فہرست اللہ تعالیٰ کی جانب سے دی ہوئی نعمتیں ہیں۔ ہم پیدا بھی نہیں ہوتے اور ماں کے پیٹ میں ہمارے رزق کا بندوبست ہوجاتا ہے۔ جب ہم اس دنیا میں آتے ہیں تو زمین کی آغوش ہمارے لئے ماں کا پیٹ بن جاتی اور زندگی گزارنے کی تمام سہولیات بن مانگے مل جاتی ہیں۔ سورج حرارت فراہم کرتا، رات سکون مہیا کرتی، چاند تارے ذوق کی تسکین کرتے، فضا تنفس کو ممکن بناتی، زمین اپنا سینہ چاک کر کے غذا کو اگلتی اور جانور گوشت کے پہاڑ بنے لذت کام و دہن کا سبب بنتے ہیں۔

ان نعمتوں کی فراہمی کو ہم فار گرانٹڈ لیتے اور اپنا حق سمجھتے رہتے ہیں۔ یہیں سے ختم نہ ہونے والی غلطیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ پھر اس کی نعمتیں حقیر لگتیں ہیں، پھر اس کے وجود کا احساس ہی نہیں ہوتا، پھر اس کے کرم کا اندازہ نہیں ہوتا اور اس کی لامتناہی شفقت محسوس ہی نہیں ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خدا نعوذ باللہ ایک خود کار مشین کی مانند لگنے لگتا ہے۔ پھر سب کچھ خود بخود ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ آفاق میں سورج کا طلوع و غروب، سبزہ کا اگنا، غلہ کی پیداوار، زمین کی گردش، بارش کا برسنا سب کچھ خود بخود ہوتا معلوم ہوتا ہے۔ سانسوں کا زیرو بم، دل کی دھڑکن، آنکھوں کی بصارت، زبان کا تکلم، کانوں کی سماعت، دماغ کی سوچیں سب ایک خود کار نظام کے تحت بندھے ہوئے لگتے ہیں۔

پھر لاشعور میں یہ خیال راسخ ہوجاتا ہے جب سب کچھ خود بخود مل رہا ہے تو کیوں اس کی شکر گزاری کی جائے، کیوں اس کی بندگی کی جائے، کیوں اس کی بات مانی جائے، کیوں اس کے آگے جبین نیاز ٹیکی جائے؟ اس سے اگلا قدم یہ ہوتا ہے کہ اب کسی خدا کی کیا ضرورت؟ یہ تو سب خود بخود ہو رہا ہے۔ اس سے آگے کچھ لوگ بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا موجود ہی نہیں اور نعوذ باللہ انسانی ذہن کی پیداوار ہے۔

اسی صورت حال سے انسان کو بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ براہ راست مداخلت کرتے ہیں اور یہ احساس دلاتے ہیں کہ یہ سب نعمتیں انسان کا حق نہیں بلکہ اللہ کی عنایت ہیں اور اللہ جب چاہیں واپس لے سکتے ہیں۔ چنانچہ کبھی زمین کو ہلایا جاتا، سمندر کے بند کھول دئیے جاتے، ہوا کی باگیں چھوڑ دی جاتیں، آسمانی بجلی کو آزاد کر دیا جاتا اور بارش کو طوفان میں بدل دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد انسان کو یہ احسا س دلانا ہے کہ یہ سب کچھ فار گرانٹڈ لینے کے لئے نہیں۔ ان سب کے خالق کا شکر واجب ہے، اس کا احترام لازم، اس کی نمک حلالی ضروری ہے۔ خدا کی نعمتوں کو فار گرانٹڈ نہ لیجئے۔ ورنہ بہت جلد آپ کو یہ تجربہ کروایا جاسکتا ہے کہ یہ سب فار گرانٹڈ نہیں۔