Take a fresh look at your lifestyle.

ایک دوست کے احوال سفر ۔ فرح رضوان

کئی سال پہلے ہم ایک اسلامی ملک میں مقیم تھے، اسلامی ممالک میں جو کچھ تیسرے درجے کے شہری کے ساتھ ہوتا ہے وہ سب بھگت کر تھک چکے تھے، کہ شکر ہے کینیڈا کے پیپرز آگئے، لیکن وہاں جانے کے انتظامات میں تاخیر کچھ زیادہ ہی ہوگئی، اور شدید رش کا سیزن آگیا۔ اب سیٹ ملنا دشوار ہی نہیں ناممکن ہو چلا تھا کہ خوش نصیبی سے ڈیڈ لائن سے کچھ دن پہلے دو سیٹس مل گئیں۔ میاں تو خیر پہلے ہی وہاں جا کر ہمارے لیے رہائش کا بندوبست کر کے آچکے تھے اب ان کو یہاں سب سمیٹنا تھا۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب جہاز میں ایک شخص دو ہینڈ کیری لے کر جاسکتا تھا، لہٰذا دو عدد میرے پاس، دو بیٹے کے پاس تھے، لیکن جوں ہی ہم بورڈنگ کے لیے لائن میں لگے پتہ چلا کہ پچھلے ہفتے قانون بدل چکا ہے۔ اب سے صرف ایک ہی ہینڈ بیگ جاسکتا ہے۔ سوٹ کیس تو پہلے ہی بمشکل بند کیے تھے، ان کو سر راہ کھولنا ایک بدترین حماقت ثابت ہوتی۔ جب بحث مباحثہ منت سماجت کسی کام نہ آئی تو ہم نے ہار مان کر گھٹنے ٹیک دیے۔ اور ایک بیگ جس کا وزن بھی بہت تھا اور جس میں قرآن کریم بھی تھا، میاں کو دے دیا۔

پھر جلدی سے بورڈنگ پاس لیا تو پتہ چلا کہ ائیر پورٹ کے آخری سرے پر ہمارا گیٹ ہے تو پھر لگائی دوڑ۔ ۔ ۔ اتنا دوڑے کہ سانس پھول گیا۔ گیٹ پر پہنچے تو وہ بند ملا اور اتنے شور میں ایک اناؤنسمینٹ پر کان کھڑ ے ہوئے کہ گیٹ بدل گیا ہے۔ اب واپس الٹا دوڑنا تھا۔ اگلے لمحے ہم پھر بھاگنا شروع ہو گئے اور اللہ اللہ کر کے گیٹ کھلنے سے کچھ منٹ قبل لاؤنج تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گئے، یوں لگا جیسے تمام تر توانائی خرچ کر کے جیت اپنے نام کر لی ہو۔

جب سانس بحال ہوئی تو میں نے بیٹے سے کہا کہ ہمیں اب وقت سے پہلے ہی آرگنائز ہوجانا چاہیے، پاسپورٹ کا کام تو ہوچکا لینڈنگ پیپرز اوپر کی طرف رکھ لیتے ہیں، لینڈنگ پیپرز؟۔ ۔ ۔ اوہ ہ ہ خدایا!!!! وہ تو اس بیگ میں ڈال دیے تھے جو میاں کو دیا تھا۔ اب دماغ پر تابڑ توڑ سوالات کی بوچھاڑ سے ذہن ماؤف ہو چلا تھا۔

آخر کار بھرے ہوئے جہاز سے ہمارا سامان آف لوڈ کر دیا گیا۔ بے بسی اور ریجیکشن کا عجیب احساس ذلت تھا، لیکن اللہ کا احسان کہ اسی کاؤنٹر پر اس سٹاف نے ہماری ایک دن بعد کی فلائٹ بک کر دی، میں تو کافی حواس باختہ تھی لیکن بیٹے کو یاد تھا تو اس نے سیٹس کے ساتھ ہی حلال فوڈ کی ریکویسٹ بھی شامل کی جو انہوں نے ہمارے سامنے اوکے کی، بہرحال اس شہر میں بھی ابھی کچھ رزق باقی تھا سو اپنا سامان لیا اور واپس گھر روانہ ہوگئے، راستے بھر، ٹکٹ مل جانے پر شکر تو کیا ہی لیکن ساتھ ہی کچھ باتوں کی بازگشت ذہن میں گونجتی رہی کہ ذرا سا excess baggage۔ ۔ ۔ دنیا میں اتنے دکھ، ذلت اور محنت کے اکارت ہونے کا سبب بن گیا، ۔ ۔ ۔ دنیا کے صرف ایک قاعدے یا قانون سے نہ واقفیت کا اتنا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس روز کیا ہو گا جب بات ہمیشہ ہمیشہ کی ہوگی اور اس سے کہیں زیادہ سخت گیر فرشتے حشر کے میدان میں تعینات ہونگے؟۔ ۔ ۔ ذہن میں یہ باتیں جاری تھیں کہ گھر آگیا، میں نے پہلی فرصت میں قرآن والے بیگ کی کچھ کتابیں نکال کر اسے لے جانے کے لیے تیار کیا اور ایک دن کے وقفے کے بعدپ ھر سفر کا آغاز ہوا، یوں تو میں نے اپنی حرکت پر بہت توبہ بھی کی تھی اور امید ہے کہ قبول بھی ہوئی ہوگی کہ اللہ رب العزت نہایت مہربان ہے۔

بہرحال چوبیس گھنٹے کا سفر مکمل ہوا اور منزل مقصود پر پہنچ گئے، اور دیکھا جائے تو یہاں پہنچ کر اصل اندازہ ہوا کہ شکر ہے ہم بنا لینڈنگ پیپرز کے یہاں نہیں آگئے، کیونکہ یہاں مختلف کمروں میں لوگوں کے انٹرویو ہو رہے تھے اور جن لوگوں کے ’’نامۂ اعمال‘‘ میں ذرا بھی گڑبڑ تھی ان کو ڈانٹ پھٹکار کر جہنم رسید کیا جا رہا تھا ’’اور ہم تو سرے سے نامہ اعمال یعنی پیپرز کے بغیر ہی روانہ ہو چلے تھے، نہ جانے ہمارا کیا حشر ہوتا‘‘۔

ہم ان لوگوں میں سے تھے جو سالہا سال میں اتفاق سے کوئی ایک لیکچر سن لیا کرتے ہیں، یا کچھ خاص سورتیں خاص مقاصد کے حصول کے لیے پڑھ لیں، علم یعنی دین کو جاننے کی نہ تو اہمیت جانی تھی، نہ ضرورت سمجھی نہ خواہش جاگی تھی، الحمد للہ مسلمان ہونے کے ناطے قرآن کی سچائی اور برکت پر تو مکمل ایمان تھا۔ لیکن فیوض اور برکات کا درست علم بھی نہ تھا اور اس سے دوری اور اعراض برتنے کے نقصانات سے واقفیت بھی نہ تھی، نہ ہی اس بات کی وضاحت کہ قرآن کو محض پڑھنا ہی نہیں ہوتا اس پر عمل بھی کرنا ہوتا ہے، یعنی پڑھنا اور عمل کرنا ملا کر تلاوت کہلاتا ہے۔ لیکن اس سفر کے بعد الحمد للہ بہت سی بہتر تبدیلیاں آتی گئیں۔

کئی سال ہو چکے ہیں، لیکن الحمد للہ اب تک صرف یاد ہی نہیں ہے، بلکہ اکثر نئے نئے زاویے سے اس سے سبق ملتے رہتے ہیں۔ خاص کر سورۃ الاعراف کی تلاوت کے دوران بیشمار مقامات پر اور مفتی مینک کے "excess baggage” کے عنوان سے ایک لیکچر کے دوران تو لگا کہ میرے ہی سفر کی بات ہو رہی ہے۔