Take a fresh look at your lifestyle.

کرونا، پاکستان  اور سنجیدگی

یہ بات بالکل واضح ہے کہ کرونا وائرس اتنا بڑا خطرہ نہیں جتنا بڑا خطرہ اس کا پھیلاؤ ہے۔ چین، اٹلی اور ایران کے اعداد وشمار یہ صاف بتاتے ہیں کہ جس وقت کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھی تو شرح اموات ایک دم سے بڑھ گئیں۔
پاکستان میں ابھی تک کرونا کا پھیلاؤ کم ہے۔ اس لیے شرح اموات بہت کم ہیں۔ یہ پھیلاؤ بڑھا تواللہ نہ کرے، مگر امکان ہے کہ  شرح اموات بہت زیادہ بڑھ جائیں گی۔ اس وائرس کے پھیلاؤ کو عام لوگوں کے سوا کوئی نہیں روک سکتا۔ مگر اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے ہاں لوگوں کا غیر سنجیدہ رویہ ہے۔ اس کو ایک ذاتی تجربے سے میں سمجھاتا ہوں۔
جس روز بے نظیر بھٹو صاحبہ کی رحلت کا سانحہ پیش آیا، میں پنجاب کے شہر جہانیاں کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں موجود تھا۔ مجھے اس رات لاہور جانا تھا۔ میں لاہور کے لیے بذریعہ ٹرین روانہ  ہوا۔ مجھے فون پر اطلاع مل رہی تھی کہ ملک بھر میں ہنگاموں کی کیا صورتحال ہے۔ اس وجہ سے میں بہت تشویش میں تھا۔ مگر ہمارے ڈبے میں کچھ لوگ اس سانحے اور ملک کے حالات سے بے پروا ہنسی مذاق اور ہلے گلے میں مصروف تھے۔ ان کو میں نے سمجھایا مگر وہ بے حس لوگ نہ باز آئے۔ کچھ ہی دیر میں ہماری ٹرین بیچ میں رک گئی  اور معلوم ہوا کہ اب سب لوگ جہاں ہیں، وہیں پھنس چکے ہیں۔ یہ وہ موقع تھا کہ وہ بے حس لوگ بھی پہلی دفعہ پریشان ہوگئے۔
یہ ہے ہمار ے عوام کی وہ نفسیات جو باعث تشویش ہے۔ یعنی جب تک وہ خود مسئلے میں نہیں آتے تب تک وہ کسی معاملے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ ایسے میں باشعور لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ باقی لوگوں کو سنجیدہ اور باشعور بنائیں۔ خاص طور پر کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں معاون بننے والے ہر رویے  کے بارے میں  بلا لحاظ دوسروں کو متنبہ کریں۔
اس میں دوسروں سے ہاتھ ملانا، دوسروں کی طرف منہ کرکے چھینکنا یا کھانسنا، غیر ضروری طور پر گھومنا پھرنا یا کھانے پینے کے لیے باہر جانا،شادی بیاہ  اور دیگر سماجی یا مذہبی تقاریب کا اہتمام کرکے اس میں شریک ہونا اور ان جیسی تمام چیزیں شامل ہیں۔
ہمارے دین میں انسانی جان کی حرمت سے بڑی کوئی چیز نہیں۔ اسی طرح توکل کا مطلب بھی یہ ہر گز نہیں ہے کہ احتیاط اور اسباب کے بغیر زندگی گزاری جائے۔ ہر نوجوان،طاقتور اور صحت مند شخص کواس موقع پر اپنے بارے میں نہیں بلکہ کمزور لوگوں کا سوچنا چاہیے۔ اس لیے کہ طاقتور انسان تو اس وائرس سے بچ نکلے گا، مگر وہ صحت مند ہونے سے قبل دس کمزور لوگوں تک یہ وائرس منتقل کردے گا۔ کسی کمزور کو اگر ہماری غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے وائرس منتقل ہوا تو اس کے نقصان کی اخلاقی ذمہ داری ہم پر عائد ہوگی۔
احتیاط کے ساتھ اس موقع پر اللہ کی طرف رجوع کرنا بہت ضروری ہے۔ عام حالات میں لوگ اللہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ لیکن اگر وہ ایسی وباؤں میں بھی اللہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تو پھر یہ دل کے سخت ہوجانے کی علامت ہے۔ یہ سنگ دلی انسان کو دنیا وآخرت دونوں میں ہلاکت میں ڈالنے کا باعث بنے گی۔ مگراسباب کی رعایت کے ساتھ ہم اللہ کی طرف رجوع کریں گے تواس کی رحمت ہمارے حال پر ضرور متوجہ ہوگی۔ ان شاء اللہ یہ وبا کم سے کم نقصان کے ساتھ رخصت ہوجائے گی یا پھر اس کا علاج دریافت ہوجائے گا۔
یاد رکھنے کی آخری بات یہ ہے کہ کرونا کی وبا تو جلد یا بدیر رخصت ہوجائے گی۔ مگر موت کا مسئلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ موت کا سامنا ہم میں سے ہر شخص کو کرنا ہے۔ اس مسئلے کا ایک ہی علاج ہے۔ خدا کو سب سے زیادہ اہم بنالیں اور مخلوق کے ساتھ خیرخواہی کریں۔ یہ رویہ اختیار کرنے والوں کے لیے موت سعادت کا دروازہ کھولے گی اور باقی لوگوں کے لیے بس ہلاکت ہے۔