Take a fresh look at your lifestyle.

بیوہ کی عدت ۔ ابویحییٰ

قرآن مجید میں طلاق یا شوہر کی وفات کے بعد خواتین کو عدت پوری کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ عدت پوری کرنے کے بعد خواتین دوسری شادی کرسکتی ہیں۔ عدت کی مدت سے قبل وہ دوسری شادی نہیں کرسکتیں۔ کیونکہ عدت کا اصل مقصد ہی یہ معلوم کرنا ہے کہ خواتین حمل سے تو نہیں۔ وہ فوراً دوسری شادی کر لے تو بچے کے نسب کا مسئلہ ہوجائے گا۔ یہی سبب ہے کہ جس خاتون کا نکاح ہوا اور تعلق زن و شو قائم نہ ہوا ہو اس پر کوئی عدت نہیں، (الاحزاب49:33)۔ اس لیے کہ نہ میاں بیوی کا رشتہ قائم ہوا نہ حمل کا امکان ہے اور نہ عدت کا مطالبہ کیا گیا۔

مطلقہ کی عدت تین حیض ہے اور چونکہ اصل مقصد عورت کے پیٹ کا حال جاننا ہے اس لیے مرد کو یہ حکم ہے کہ وہ ایک ایسے طہر میں طلاق دے جس میں تعلق زن و شو نہ قائم ہوا ہو۔ اس کے بعد تین حیض سے یہ بات یقینی ہوجاتی ہے کہ یہ خاتون حمل سے نہیں۔ شوہر کی وفات کی صورت میں چونکہ ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی اس لیے بیوہ کی عدت ذرا بڑھا کر چار ماہ دس دن کر دی گئی ہے تاکہ تین حیض سے قبل تعلق قائم بھی ہوا ہو تب بھی مزید سوا مہینے سے معاملہ اور واضح ہوجائے۔ عورت اگر حاملہ ہے تو اسی وجہ سے مدت عدت وضع حمل تک ہوجاتی ہے۔

قرآن مجید کی روشنی میں ایک بیوہ پر اصل پابندی بس یہی ہے کہ عدت کے عرصے میں دوسری شادی نہیں کرے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کے لحاظ میں کہ بیوی شوہر کے گھر ہی عدت گزار رہی ہوتی ہے بیوہ کو تلقین کی ہے وہ سوگ کی کیفیت میں عدت گزارے اور اس عرصے میں کوئی زیب و زینت نہ کرے۔ ارشاد نبوی ہے:
’’بیوہ عورت رنگین کپڑے نہیں پہنے گی، نہ زرد نہ گیرو (سرخ مٹی) سے رنگے ہوئے۔ وہ زیورات استعمال نہیں کرے گی۔ اور نہ مہندی سرمہ لگائے گی۔‘‘، (ابو داؤد، رقم 2304)

ایک بیوہ پر قرآن و حدیث میں دین کی طرف سے عائد کردہ پابندیاں اتنی ہی ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے فقہا کے ہاں بیوہ پر ایک اور پابندی اکثر بیان کی جاتی ہے۔ وہ یہ کہ اس عرصے میں بیوہ گھر سے باہر نہ نکلے۔ ہم کوشش کے باوجود قرآن و سنت اور حدیث میں اس حکم کا کوئی ماخذ تلاش نہیں کرسکے۔ زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ پابندی مرحوم شوہر کے نسب کو محفوظ کرنے کے لیے لگائی جاتی ہے کہ اس عرصے میں بیوہ کہیں ناجائز تعلق قائم کر کے شوہر کے سر کوئی ایسا بچہ نہ ڈال دے جو اس کا نہ ہو۔

ہماری ناقص رائے میں اس سوچ پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ جس عفیفہ نے یہ ’’کارنامہ‘‘ سرانجام دینا ہوگا وہ شوہر کے حین حیات بھی یہ کام کرسکتی ہے۔ اس کے لیے اسے شوہر کی موت کا انتظار کرنے اور عدت کے ’’سنہری موقع‘‘ کا انتظار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمارا دین اس پہلو سے ہماری جو تربیت کرتا ہے اور اس نے فواحش اور بدکاری کو روکنے کے لیے جو عمومی پابندیاں لگا رکھی ہیں وہ اپنی ذات میں بہت کافی ہیں۔ اگر وہ کافی نہیں ہیں تو کوئی اضافی حکم بدکاری کو نہیں روک سکتا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی پابندیوں کے نتیجے میں ایک عام بیوہ بہت سخت مشکلات میں گھر جاتی ہے۔ دور جدید میں خواتین کا گھر سے باہر نکلنا اب ایک معمول ہے۔ پھر عام طور پر خواتین بڑی عمر میں بیوہ ہوتی ہیں جب وہ شادی کی عمر سے بہت دور نکل چکی ہوتی ہیں اور اس عمر میں اللہ تعالیٰ ان سے اوڑھنی اور دوپٹے کی لازمی پابندی بھی اختیاری بنا دیتے ہیں، (النور60:24)۔ اس بیوہ خاتون کو ہم شریعت کے نام پر گھر میں بند کر دیتے ہیں۔ آج کل کی تیز رفتار زندگی میں رشتہ داروں کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ بیوہ سے ملنے آئیں۔ ایسے میں بیوہ کے کہیں آنے جانے پر پابندی لگانا ایک دکھی عورت کو نظر بندی اور قید تنہائی کی سزا دینے کے مترادف ہے۔