Take a fresh look at your lifestyle.

عورتوں کا تنہا سفر کرنا ۔ ابویحییٰ

سوال: کیا عورت اکیلے سفر کرسکتی ہے؟ مثلاً امریکہ وغیرہ بغیر کسی محرم کے اور اس حوالے سے حدیث شریف پر بھی روشنی ڈالیے اور عورت حج پر اکیلے جاسکتی ہے بغیر محرم کے۔ (مریم عبدالقادر)

جواب: خواتین کے تنہا سفر کرنے کے حوالے سے جس روایت کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ اس طرح ہے:
’’کوئی عورت محرم کے بغیر تین دن تک کے سفر کے لیے نہ نکلے‘‘۔(بخاری رقم1036)

اس روایت کی بنیاد پر ہمارے ہاں یہ رائے قائم کی گئی ہے کہ خواتین تنہا سفر کے لیے نہیں نکل سکتیں چاہے وہ حج کا ہی سفر کیوں نہ ہو۔ہمارے نزدیک اس روایت میں کسی شرعی یا دینی حکم کا بیان نہیں۔ اس میں خواتین کی ناموس اور عصمت کی حفاظت کے پیش نظر سدِّ ذریعہ کی نوعیت کی ایک ہدایت دی گئی ہے۔ ایک خاتون اُس دور کے حالات میں جب تنہا سفر کے لیے نکلتی تو اس بات کا اندیشہ تھا کہ قافلے میں کسی قابلِ اعتماد محرم کے بغیر سفر کرتے ہوئے، کسی سرائے، مہمان خانے میں ٹھہرنے کے دوران یا ایسے کسی اور موقع پر اس کی عصمت پر حرف آسکتا ہے۔ یہ صورت حال اگر آج بھی ہو تو خواتین کو یہی مشورہ دیا جائے گا کہ وہ محرم کے بغیر سفر نہ کریں۔

اب رہا آپ کا سوال کہ کوئی عورت امریکہ وغیرہ جاسکتی ہے تو ہماری رائے میں طویل فاصلوں کے براہِ راست سفر کے ایسے مواقع اب دستیاب ہیں جس میں ایک خاتون کو ایک ائیر پورٹ سے دوسرے ائیر پورٹ تک محفوظ اور پرہجوم مقامات سے گزرنا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ یہ سفر کرسکتی ہے۔ رہا حج کا سوال تو اس میں محرم کی پابندی کا مطالبہ سعودی حکومت کا ہے، شریعت کا نہیں۔ ہمارے نزدیک حج کا سفر چونکہ گروپ کی شکل میں کیا جاتا ہے اور گروپ میں اگر قابلِ اعتماد لوگ جو قریبی رشتہ دار اور فیملیز ہوسکتی ہیں، ساتھ ہیں تو سفرِ حج کیا جاسکتا ہے، چاہے کوئی شرعی محرم ہمراہ نہ ہو۔ یہی وہ رائے ہے جو قدیم فقہا میں سے امام مالک اور امام شافعی کی ہے۔ اس مسئلے میں مختلف ائمہ کا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے ابن رشد لکھتے ہیں:
’’اس باب میں ایک اختلافی مسئلہ یہ بھی ہے کہ کیا عورت پر حج کے واجب ہونے کے لیے شرط ہے کہ اس کے ساتھ شوہر یا کوئی محرم ہو جو سفرِ حج میں اس کا ساتھ دے سکے؟ امام مالک اور امام شافعی کہتے ہیں کہ وجوب کے لیے یہ شرط نہیں ہے۔ عورت حج کے لیے نکل سکتی ہے اگر اسے محفوظ رفاقت میسّر آجائے۔ امام ابو حنیفہ، امام احمد اور ایک جماعت کی رائے ہے کہ محرم کا وجود اور سفر میں اس کی رفاقت وجوب کی شرط ہے۔(بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد۔430)

ہمارے نقطہ نظر کی تائید مزید بخاری کی وہ حدیث کرتی ہے جس میں حضور نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ حیرہ سے ایک سانڈنی سوار عورت تنہا نکلے گی اور بیت اللہ تک پہنچ کر اس کا طواف کرے گی اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا، (بخاری:رقم3400)۔ اس حدیث کے راوی حضرت عدی بن حاتم ،جن سے مخاطب ہوکر حضور نے یہ پیش گوئی فرمائی تھی، کہتے ہیں کہ اب ہم نے دیکھ لیا ہے کہ حیرہ سے تنِ تنہا عورت سفر کے لیے نکلتی ہے اور کسی خوف کے بغیر بیت اللہ کا طواف کرنے کے لیے آتی ہے۔ اس حدیث میں بات ہی یہ بیان ہوئی ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ اللہ کا دین پھیل جائے گا اور اس طرح امن و امان ہوگا کہ تنہا عورت بہت دور سے حج کے لیے آسکے گی۔ چنانچہ اس حدیث کی روشنی میں نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ خواتین محرم کے بغیر سفر کے لیے جاسکتی ہیں بلکہ یہ بھی معلوم ہوا کہ ممانعت کی اصل وجہ امن و امان کا مسئلہ اور ان کی عصمت و ناموس کی حفاظت تھی۔

چنانچہ اصل بات جو دونوں قسم کے سفروں میں پیش نظر رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ایک خاتون کی عصمت پر کوئی حرف نہ آئے، اس کے لیے سفر کے کسی موقع پر تنگی پیدا نہ ہو اور وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود کی حفاظت کرنے کے مواقع آسانی سے پاسکے۔ اس بات کا خیال سفر کرنے والی خاتون کو بھی ہونا چاہیے اور خواتین کے سرپرستوں کو بھی۔