Take a fresh look at your lifestyle.

اچھے عمل کا بُرا صلہ ۔ ابویحییٰ

سوال: میں ایک میڈیکل ڈاکٹر ہوں اور انگلینڈ میں رہتا ہوں۔ میری عمر 48 برس ہے، شادی شدہ ہوں اور دو بچے ہیں، بیٹا 15 سال اور بیٹی 13 سال کی۔ میری جاب بھی اچھی ہے اور الحمد للہ زندگی اچھی گزر رہی ہے۔ 9 دسمبر، 2007 کو میں کراچی گیا تاکہ اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں جنہیں حج کے لیے جانا تھا میں اپنے بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کر سکوں۔ میرے بھائی نے مجھے اسی مقصد سے بلوایا تھا چنانچہ میں اپنے بیوی بچوں کو انگلینڈ میں چھوڑ کر قریباً دو ہفتے کے لیے اپنے والدین کے ساتھ رہا۔ عید کے بعد جب میں واپس انگلینڈ جا رہا تھا تو دبئی ایئر پورٹ پر مجھے ہارٹ اٹیک ہوا۔

جو بات مجھے پریشان کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ میرا سگا بھائی حج پر گیا اور میری صحت و زندگی کے لیے دعائیں کیں اور میں خود بھی بہت اچھے جذبے کے ساتھ اپنے والدین کی خدمت کے لیے گیا لیکن واپسی پر مجھے اس کا بدلہ ہارٹ اٹیک کی صورت میں ملا۔ برائے مہربانی اس بارے میں مجھے بتائیں کہ مجھے اچھے عمل کا برا صلہ کیوں ملا۔ (رفیق صاحب)

جواب:آپ کے سوال میں یہ غلط فہمی پوشیدہ ہے کہ آپ کو ہونے والا ہارٹ اٹیک آپ کی ایک نیکی کا بدلہ تھا۔ ہم آپ سے یہ سوال کرنا چاہیں گے کہ اگر آپ کے بچے آپ کی ہدایت کے مطابق کوئی اچھا کام کریں تو کیا آپ انھیں سزا دیں گے؟ جب آپ ایک عام انسان ہوکر یہ نہیں کرسکتے تو پروردگار عالم جو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے، وہ اپنے بندوں کی نیکی کا بدلہ اس طرح کیوں دے گا کہ والدین کی خدمت کا بدلہ ہارٹ اٹیک کی شکل میں دے؟ اس لیے آپ پورا اطمینان رکھیں کہ آپ کو کوئی سزا نہیں ملی اورآپ کو آپ کی نیکی کا بہترین بدلہ مل کر رہے گا۔ رہا سوال یہ کہ آپ کو ہارٹ اٹیک کیوں ہوا تو ظاہر ہے کہ بحیثیت ایک ڈاکٹر اس کی وجوہات کو آپ ہم سے زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔

آپ کے خط میں ایک غلط فہمی اور مضمر ہے کہ جب کبھی ایک انسان کوئی نیکی کا کام کرے یا اس کے حق میں کوئی دعا کی جائے تو لازماً اس کے معاملات بہتر ہونے چاہییں۔ اس کی صحت اور مال کو کئی نقصان نہ پہنچے۔ یہ بات بھی ٹھیک نہیں ہے۔ یہ دنیا اللہ تعالیٰ نے آزمائش کے اصول پر بنائی ہے، سزا اور جزا کے اصول پر نہیں۔ یہاں اگر ہر نیکی پر فوری جزا اور ہر بدی پر سزا ملنے لگے تو بتائیے کون اللہ کا انکار کرے گا اور کون اس کی نافرمانی کرے گا؟ اس دنیا میں صالحین پر بھی تکالیف آتی ہیں اور بدکاروں کو بارہا نعمتیں مل جاتی ہیں۔ یہ آزمائش کے اُس قانون کے تحت ہوتا ہے جس میں انسان کو اچھے برے حالات میں بن دیکھے رب کو ماننا اور اس کی اطاعت کرنی ہے۔ جو لوگ یہ کرلیتے ہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ کل قیامت کے دن انھیں دیا جائے گا۔

رہی یہ دنیا تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ صالحین کو تنہا اور بے آسرا نہیں چھوڑتے۔ اس دنیا کی سب سے بڑی نعمت یعنی دل کا اطمینان انھیں ہمیشہ حاصل رہتا ہے۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ان کی نیکیاں خارج کی دنیا میں بھی ان کے لیے بھلائی کا سبب بن جاتی ہیں۔ مثلاً یہی والدین کی خدمت وہ نیکی ہے جس کا بدلہ انسان اکثر اس دنیا میں نیک اولاد کی شکل میں پالیتا ہے۔ آپ بھی یقین رکھیے کہ اگر آپ والدین کے حقوق پورے کر رہے ہیں اور اولاد کی اچھی تربیت کر رہے ہیں تو انشاء اللہ آپ کی اولاد بڑھاپے میں آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائے گی۔

ہم پر مشکلات کیوں آتی ہیں؟ یہ ایک اہم اور تفصیلی موضوع ہے جس کا احاطہ اس مختصر جواب میں کرنا ممکن نہیں۔ اس موضوع پر ایک اسکالر جناب ساجد حمید نے اسی نام سے ایک تفصیلی کتاب تصنیف کی ہے۔ موقع ہو تو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ امید ہے کہ یہ کتاب آپ کے کنفیوژن کو انشاء اللہ دور کرنے کا سبب بن جائے گی۔