Take a fresh look at your lifestyle.

آپ کو نیند کیسے آجائے گی؟ ۔ ابویحییٰ

(دوسری تحریر)
[یہ تحریر اصلاً ایک خط ہے جو میری کتاب ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے والے ایک صاحب کو لکھا گیا۔ انہوں نے کتاب کے خلاف ایک مضمون لکھ کر اپنے متعلقین کو اس کتاب کے خلاف مہم چلانے پر آمادہ کیا۔ میں نے کوئی جوابی مضمون لکھنے کے بجائے ایک ذاتی خط میں ان کو توجہ دلائی، مگر بدقسمتی سے ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ یہ خط کسی قسم کی علمی بحث پر نہیں بلکہ کچھ اخلاقی سوالات پر مشتمل ہے جو ہمارے ہاں اکثر نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ میرامقصد کسی فرد کے خلاف مہم چلانا نہیں بلکہ رویوں کی نشاندہی ہے اس لیے ان صاحب کا نام اور متعلقہ تفصیلات حذف کرکے اب یہ خط افادہ عام کے لیے قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔]

السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
امید ہے کہ مزاج گرامی خیریت سے ہوں گے۔ ماہنامہ۔۔۔۔۔ کے شمارے میں اپنی کتاب ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ کے حوالے سے آپ کے فرمودات دیکھنے کا موقع ملا۔ گرچہ آپ کے مضمون کے آغاز اور اختتام دونوں سے یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ اس مشقت کا اصل مقصد مجھ گناہگار کی اصلاح نہیں بلکہ اپنی تنظیم کے ان سادہ دل دوستوں کی اصلاح اور انہیں اس گناہ عظیم سے بچانا ہے جو اس کتاب کو پھیلا کر وہ کما رہے ہیں۔ تاہم مجھے خوشی ہے کہ آپ کی اس تحریر کی وجہ سے اس گناہگار کو کتاب پر ایک دفعہ پھر تنقیدی نظر ڈالنے کا موقع مل گیا۔ میرے لیے اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ قبل اس کے کہ روز قیامت میرا احتساب ہو میں اس دنیا میں اپنا احتساب آپ کر لوں۔ ظاہر ہے کہ میں انسان ہوں غلطیاں بھی کرسکتا ہوں اور اپنے تعصبات کا اسیر بھی ہوسکتا ہوں۔ اس لیے میں کسی بھی تنقید کو چاہے وہ کتنے ہی سخت اسلوب میں ہو، ردی کی ٹوکری میں پھینکنے اور جواب دینے کی نفسیات میں مبتلا ہو کر پڑھنے کے بجائے اپنی اصلاح کے جذبے سے پڑھتا ہوں۔ اس لیے کہ خدا اور آخرت پر ایمان وہ کہانی نہیں جو میں دوسروں کو سناتا ہوں۔ یہ اس گنہہ گار کی زندگی ہے۔

اس خط کا مقصد ایک طرف آپ کا شکریہ ادا کرنا تھا اور دوسری طرف اس حسن ظن کے ساتھ آپ کو کچھ چیزوں کی طرف توجہ دلانا مقصود تھا کہ میں جتنا خدا اور آخرت پر ایمان رکھتا ہوں، آپ جیسا مخلص آدمی مجھ سے لاکھوں گُنا زیادہ ان حقائق کو مان کر اللہ کے حضور پیشی سے شب و روز لرزتا ہوگا۔ جب انسان کے جسم پر لباس ہوگا اور نہ بچانے والا انسان کو عالم کے پروردگار کے کڑے احتساب سے بچا سکے گا۔ اس روز انسان اپنی علمی کوتاہیوں کا تو شاید یہ عذر پیش کرنے کی جرات بھی کرسکے کہ آقا غلطی ہوگئی معاف کر دے۔ مگر اخلاقی جرائم کا کوئی عذر پیش کرنا بھی اس روز ممکن نہ ہوگا۔ اس پس منظر میں میری گزارشات حسب ذیل ہیں:
۱۔ میرا ای میل کتاب پر موجود ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ اپنے اعتراضات آپ براہ راست مجھے بھیج کر میرا نقطہ نظر جاننے کی کوشش کرتے۔ کسی شخص کے بارے میں کوئی فیصلہ سنانے سے قبل دنیا ہی نہیں آخرت کی عدالت میں بھی اس شخص کو صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جانا عدل و انصاف کا مسلمہ تقاضہ ہے۔ آپ نے اپنے مضمون میں میرے بارے میں ابتدا ہی میں یہ فیصلہ سنا دیا کہ میں نے ’’حق کے پردے میں باطل تصورات کی تبلیغ بڑی مہارت کے ساتھ‘‘ کی ہے۔ میں بڑے ادب سے دریافت کروں گا کہ کیا آپ پیغمبر ہیں کہ جو آپ نے سمجھ لیا وہ حرف آخر ہے اور اس بنیاد پر آپ کسی مسلمان کے بارے میں جو چاہیں فیصلہ سنا دیں۔ اگر آپ پیغمبر ہیں تب بھی ’’باطل کی تبلیغ‘‘ کے جس سنگین ترین الزام جو درحقیقت کفر کا الزام ہے، کا اعلان کرنے سے قبل یہ آپ کی دینی ذمہ داری تھی کہ آپ مجھ سے میرا نقطہ نظر جانتے۔ اس لیے کہ حدیث پاک (بخاری، رقم 5752) کے مطابق اس طرح کا الزام اگر درست نہیں تو پھر اپنے لگانے والے کے کفر کا باعث بن جاتا ہے۔ میں آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے سامنے کھڑا کرکے یہ پوچھ لیا کہ کسی کا نقطہ نظر جانے بغیر اس کے بارے میں ایک فیصلہ دینے کا تمھیں کیا حق تھا؟ میں اپنے مجرموں کو صفائی کا موقع دیے بغیر فیصلہ نہیں کرتا تو تم نے میرے ایک بندے کے بارے میں جس کے دل کا حال میں جانتا تھا یہ فیصلہ کس طرح کر لیا۔ پھر کس بنیاد پر تم نے اور تمھارے کہنے پر تمھارے ساتھیوں نے میرے بندے کے خلاف مہم شروع کر دی۔

اگر خدا اور آخرت نام کی کسی حقیقت کو آپ مانتے ہیں تو مجھے نہیں معلوم آج کے بعد آپ کو نیند کیسے آجائے گی؟

گرچہ مذکورہ بالا بات کے بعد مجھے مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں رہی کہ اگر یہی بات موثر نہیں تو مزید کچھ کہنے کا فائدہ نہیں اور اگر یہ بات اثر کر گئی ہے تو کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں۔ مزید یہ کہ میں آپ کو کسی قسم کی علمی بحث کرکے ذہنی مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ لیکن آپ کا مضمون مسلمہ علمی اور اخلاقی روایات اور عدل و دیانت کے تمام ضابطوں کی ایسی کھلی پامالی پر مشتمل ہے کہ جو کسی بھی شخص کے لیے روز قیامت سنگین ترین مسائل پیدا کر دے گی۔ ہوسکتا ہے میری ان گزارشات سے آپ خدا کے اس غضب پر کچھ متنبہ ہوجائیں جو مجرموں کی شکل بگاڑ دے گا۔

۲۔ آپ نے مجھ پر اپنا نام چھپانے کے حوالے سے بددیانتی کا سنگین ترین الزام لگایا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ کچھ ابتدائی درجے کی عربی آپ کے ہاں پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ یہ عربی کم از کم اتنی ضرور ہوتی ہے کہ انسان کو معلوم ہوجائے کہ ’’ابویحییٰ‘‘ ایک کنیت ہے۔ علم و ادب اور زبان سے معمولی شناسائی رکھنے والا شخص بھی یہ کہنے کی حماقت نہیں کرسکتا کہ اپنی کنیت سے کتاب لکھنا یا اپنا تعارف کرنا اپنے آپ کو چھپانا ہے۔

میں مسلمانوں کی علمی تاریخ اور معاصر اہل علم وفن کی درجنوں مثالوں سے یہ بتا سکتا ہوں کہ یہ سب لوگ اپنی کنیت سے لکھا کرتے ہیں اور آج بھی لکھتے ہیں۔ کوئی اسے نام چھپانا نہیں کہتا۔ نام اس وقت چھپایا جاتا ہے جب نام نہ لکھا جائے یا پھر کسی اور نام سے لکھا جائے۔ مزید یہ کہ میں نے نہ یہ کتاب آپ کو تبصرے کے لیے بھیجی ہے اور نہ تعارف کے لیے اور نہ آپ کے کسی ساتھی کو کتاب پڑھنے کے لیے دی کہ اپنا تعارف کرانا میرا اخلاقی فرض بن جاتا۔ مگر آپ نے یہ سب کچھ جانتے بوجھتے مجھ پر بددیانتی کا الزام لگایا۔ مزید یہ کہ آپ نے میرے دل کا حال بھی جان لیا کہ میں نے کس وجہ سے یہ کتاب اپنی کنیت سے لکھی اور بڑے اعتماد سے اسے بیان کر دیا۔ ظاہر ہے کہ کوئی شخص جب نبی کی طرح فیصلہ دینے لگے تو اس کے لیے غیب دانی ضروری ہے۔ مگر کیا آپ کو یہ سوچنا نہیں چاہیے کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ آپ کا احتساب کرتے ہوئے آپ سے پوچھیں گے کہ تم نے علم کے بغیر محض ذاتی اندازوں کی بنیاد پر میرے بندے پر بددیانتی کا الزام لگایا تو آپ کیا جواب دیں گے؟
اگر خدااور آخرت نام کی کسی حقیقت کو آپ مانتے ہیں تو مجھے نہیں معلوم آج کے بعد آپ کو نیند کیسے آجائے گی؟

۳۔ آپ نے مجھ پر یہ بہتان تراشا ہے کہ میں نے سلف صالحین سے تعلق کی نفی کی ہے۔ کمال یہ ہے کہ اس دعویٰ کے ثبوت میں میرا جو اقتباس آپ نے نقل کیا ہے اس میں سرے سے سلف صالحین کا ذکر ہی نہیں نہ کسی پہلو سے ان سے کسی تعلق کی نفی کی گئی ہے۔ آپ کا دیا ہوا اقتباس پڑھ کر واقعی آپ کے حوصلے کی داد دینی پڑتی ہے۔

اس کے بالکل برعکس حقیقت یہ ہے کہ ناول کے اس مرحلے پر مرکزی کردار عبداللہ جن لوگوں کے ساتھ موجود تھا وہ سب کے سب سلف صالحین ہی تھے۔ ان کی عظمت کے احساس سے عبداللہ کو ان کے ساتھ شامل ہونے سے گریزاں دکھایا گیا ہے۔ عبداللہ اپنی ساری خدمات کے باوجود ان بزرگوں کے ساتھ چلتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔ یہ ہے سلف صالحین کے متعلق میرا نقطہ نظر۔ افسوس ہے آپ پر کہ آپ نے کیا پڑھا اور دوسروں کو کیا بتایا۔ میرے بھائی اپنی تنظیم کے لوگوں کو میری کتاب پڑھنے اور پھیلانے سے روکنا تھا تو مجھ سے کہہ دیتے۔ میں کتاب پر لکھوا دیتا کہ آپ کی تنظیم کے لوگوں کے لیے اس کتاب کا پڑھنا منع ہے۔ اس کے لیے بہتان تراشی کرکے اپنی آخرت کو داؤ پر لگانے کی کیا ضرورت تھی۔
اگر خدا اور آخرت نام کی کسی حقیقت کو آپ مانتے ہیں تو مجھے نہیں معلوم آج کے بعد آپ کو نیند کیسے آجائے گی؟

۴۔ آپ نے ایک عنوان باندھا ہے کہ موسیقی جائز ہے۔ اس کے ثبوت میں جنت کی زندگی کا ایک اقتباس بھی دیا ہے۔ غالباً آپ اپنے ان ضعیف الاعتقاد معصوم پیروکاروں پر یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ اس ملعون ابو یحییٰ نے بے پردگی کے ساتھ موسیقی جیسی حرام چیز کو بھی جنت میں داخل کر دیا۔ چہرے کے پردے پر میں نے اس لیے کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ اول یہ علمی مسئلہ ہے اور علمی بحث نہ کرنے کا میں وعدہ کرچکا ہوں۔ دوسرا اس مسئلے میں آپ کے طعنے سہنے کے لیے میرے ساتھ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اورامام ابو حنیفہ سے لے کر عصر حاضر کے امام ناصر الدین البانی جیسے ائمہ موجود ہیں جو چہرے کے پردے کے قائل نہیں۔

البتہ جنت میں موسیقی پر میں کچھ ضرور عرض کروں گا۔ لیکن اس باب میں قرآن و حدیث سے میں ہرگز استنباط نہیں کروں گا کہ میں وعدہ کرچکا ہوں کہ آپ کو کسی علمی مشقت میں نہیں ڈالوں گا۔ اسلاف سے آپ کی محبت دیکھتے ہوئے آپ کو آگاہ کر رہا ہوں کہ جنت میں موسیقی ہوگی، یہ میرا نہیں اسلاف کا موقف ہے۔ یہ بات امام طبری اور امام ابن کثیر نے اپنی تفسیروں میں آیہ مبارکہ ’’فھم فی روضۃ یحبرون‘‘، (اہل ایمان ایک شاندار باغ میں مسرور ہوں گے، روم30:15) بیان کی ہے۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ قیامت کے دن خدا آپ کو اس جرات پر پکڑے گا کہ آپ نے علم کے بغیر کلام کیا یا اس پر کہ جانتے بوجھتے جھوٹ بولا۔
اگر خدا اور آخرت نام کی کسی حقیقت کو آپ مانتے ہیں تو مجھے نہیں معلوم آج کے بعد آپ کو نیند کیسے آجائے گی؟

۵۔ اس پوری تنقید میں آپ نے مرد و خواتین کے تعلق کے حوالے سے بار بار مختلف پیرایوں میں اپنے معتقدین کو بھڑکانے کے لیے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ میں بے حیائی پر مبنی رویوں کو فروغ دینا چاہتا ہوں۔ اس کوشش میں آپ شاید یہ بھول گئے کہ میں جنت کی پاک بستی اور نجات یافتہ پاکیزہ لوگوں کا ذکر کر رہا ہوں۔

تاہم آپ منفی ذہن سے باہر نکل کر کتاب کو پڑھتے تو آپ کو اندازہ ہوتا کہ کتاب میں کئی مقامات پر فحاشی اور بے حیائی کے رویوں کو میں نے زبردست تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس معاملے میں برسہا برس میں جو کچھ میں نے لکھا ہے دنیا بھر میں لوگ اسے پڑھتے اور پھیلاتے ہیں۔ میرا موقف اتنا مقبول ہے کہ آپ کی اپنی تنظیم کے لوگوں نے اس برس جب ویلنٹائن ڈے کے خلاف مہم چلائی تو اس عاجز کے کئی برس قبل لکھے ہوئے مضامین کو بنیاد بنایا۔ شہر کے بڑے حصے کو جن بینروں سے بھر دیا گیا تھا ان پر بے حیائی کے خلاف لکھے ہوئے جملے یا تو پورے کے پورے اس عاجز کی تحریروں سے لیے گئے تھے یا پھر ان کا مفہوم لیا گیا تھا۔ عدل و انصاف کا تقاضہ یہ تھا کہ آپ مجھے بدنام کرنے اور میرے خلاف مہم چلانے کے بجائے اس پورے تناظر میں حسن ظن سے کام لیتے یا مجھ سے براہ راست وضاحت طلب کرتے۔

مگر آپ نے اب یہ کر ہی دیا ہے تو میں سوال کرتا ہوں کہ یہی طریقہ واردات استعمال کر کے آپ اپنے کسی درس قرآن میں ولواعجبک حسنھن (اے نبی آپ بیان کردہ خواتین کے علاوہ کسی اور سے نکاح نہیں کرسکتے چاہے ان کا حسن آپ کے لیے دل پسند ہو،احزاب33:52) اور ھٰولاء بناتی ھن اطہر لکم (یہ میری بیٹیاں ہیں جو تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ ہیں، ہود11:78)۔ عام قارئین کے لیے عرض ہے کہ یہ جملہ حضرت لوط علیہ السلام نے بستی کے اوباشوں سے اس وقت کہا جب ہوس میں اندھے ہوکر انہوں نے نوجوان لڑکوں کی طلب میں آپ کے گھر پر چڑھائی کردی تھی:ابو یحییٰ) جیسی قرانی آیات پر بھی اسی طرح تبصرہ کیجیے جس طرح مجھ پر کیا ہے۔ اور حضرت لوط علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ خود اللہ تعالیٰ پر بھی ٹھیک اسی طرح حملے کیجیے جس طرح اس فقیر پر کیے ہیں۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک عادل انسان ایک جگہ ایک معاملہ کرے اور دوسری جگہ دوسرا معاملہ۔

میں اپنے لکھے ہوئے ایک ایک مقام کو لے کر یہ بیان کرسکتا ہوں کہ وہاں اصل بات کیا بیان ہو رہی تھی کس طرح آپ نے صرف مہم جوئی کے شوق میں ان کے غلط مطالب لیے ہیں۔ مگر میں چونکہ وعدہ کرچکا ہوں کہ آپ کو کسی علمی مشقت میں نہیں ڈالوں گا، اس لیے سر دست صرف سوال یہ ہے کہ قیامت کے دن آپ خلاف عدل و انصاف رویے کی کیا توجیہ اللہ کی بارگاہ میں پیش کریں گے؟
اگر خدا اور آخرت نام کی کسی حقیقت کو آپ مانتے ہیں تو مجھے نہیں معلوم آج کے بعد آپ کو نیند کیسے آجائے گی؟

۶۔ تنقید کرتے ہوئے آپ کے قلم میں اس مقام پر بڑی روانی آگئی جب آپ حضرت یرمیاہ علیہ السلام کے تذکرے پر تنقید کر رہے تھے۔ میں نے چونکہ آپ کو علمی مشقت میں نہ ڈالنے کا وعدہ کرلیا ہے اس لیے میں ان کے ذکر کی وجوہات اور پس منظر سے صرف نظر کرکے آپ کی توجہ ایک اور حقیقت کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ آپ پورے جوش اور روانی سے جب یہ لکھ رہے تھے کہ عبداللہ کو حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم علیہم السلام سے ملنے کی خواہش نہ ہوئی تو آپ یہ بھول رہے تھے کہ چند صفحات (صفحہ37-38) قبل عبد اللہ نہ صرف ان سے بلکہ دیگر کئی اور نبیوں سے مل کر آرہا تھا۔

سوال یہ ہے کہ جس شخص کی یادداشت اور قوت مطالعہ اتنی کم ہو، اسے کیا حق ہے کہ وہ تنقید جیسے نازک میدان میں اترے اور اپنی اس کمزور یادداشت اور قوت مطالعہ میں کمی کی بنیاد پر ہدایت پھیلانے والی ایک کتا ب پر تنقید کرے۔

ویسے مجھے یہ یادداشت کی کمزوری ہی محسوس ہوتی ہے کہ آپ ڈاکٹر اسرار مرحوم کی ان تمام پرانی تقریروں کو بھول چکے ہیں جن میں انہوں نے سورہ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات پر گفتگو کرتے ہوئے یہ واضح کیا تھا کہ بخت نصر کے دور میں بنی اسرائیل نے کیا فساد برپا کیا تھا اور کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی تھی۔ اس وقت جو پیغمبر موجود تھے ان کا نام یرمیاہ علیہ السلام تھا۔ سارے بڑے مفسرین اس بات کو بیان کرتے ہیں۔ رہی ’’سپر پاور کی غلامی سے نجات کی غیرت مندانہ جدوجہد‘‘ جس کا آپ اپنی تنقید میں بڑے فخر سے ذکر فرما رہے ہیں، قرآن مجید سورہ بنی اسرائیل کی ابتدا میں ان کی حرکتوں کو فساد فی الارض کہتا ہے۔ اس عاجز نے یہ بات بیس پچیس برس قبل ڈاکٹر اسرار مرحوم ہی سے سمجھی تھی کہ بنی اسرائیل کے فساد کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے بخت نصر کے عذاب کا کوڑا ان کی پشت پر برسا دیا تھا۔

آپ کو شاید احساس نہیں آپ نے کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ آپ اس فقیر کو اپنے پیروکاروں کی نظر میں بے وقعت کرنے کے شوق میں آسمان و زمین کے مالک اور قرآن نازل کرنے والی ہستی کی نظر میں کس مقام پر آچکے ہیں۔ کوئی عام آدمی یہ کام کرتا تو شاید معافی کی کوئی گنجائش تھی۔ مگر قرآن پڑھنے پڑھانے والا یہ کام کرے تو سوچ لینا چاہیے کہ معافی کی کیا گنجائش بچتی ہے۔ مجھے حیرت اس شخص پر ہے، جو جانتا ہو کہ بنی اسرائیل آیت 4 میں اللہ تعالیٰ حضرت یرمیاہ کے زمانے کے یہود کے عمل کو فساد فی الارض کہہ چکے ہیں اور وہ بدنصیب انسان اسے ’’سپر پاور کی غلامی سے نجات کی غیرت مندانہ جدوجہد‘‘ قرار دے رہا ہو۔ مگر اس کریم کا کرم دیکھیے کہ اس فقیر کے ذریعے سے آپ کو توبہ کا ایک موقع دے دیا ہے۔ میرے بھائی میں ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتا ہوں کہ سوچیے! اللہ کے اس حقیر غلام کی مخالفت کے شوق میں آپ کہاں تک پہنچ گئے؟
اگر خدا اور آخرت نام کی کسی حقیقت کو آپ مانتے ہیں تو مجھے نہیں معلوم آج کے بعد آپ کو نیند کیسے آجائے گی؟

۷۔ معاملہ یادداشت کی کمی تک رہتا تو شاید پھر کچھ گوارا تھا، مگر آپ کی یہ تنقید اس بات کا بھی واضح ثبوت ہے کہ آپ اپنے لکھے ہوئے الفاظ کو بھی نہیں پڑھ پاتے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کے درجات یا اجر کا ذکر کہیں نہیں کیا۔ لطف یہ ہے کہ صفحہ 75 پر میرا جو اقتباس آپ نے نقل فرمایا ہے اس کی ابتدا ہی میں یہ بیان ہوا کہ اللہ کی راہ میں قتل ہوجانے والے لوگ بھی بڑے اعلیٰ اجر کے حق دار ہوئے ہیں۔ مگر کیا کیجیے انسان جب مخالفت کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے تو اسے یہ بھی نظر نہیں آتا کہ وہ کیا لکھ رہا ہے اور کیا ثابت کر رہا ہے۔ گرچہ ایسے لوگوں کو قرآن سنانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن اتمام حجت کے لیے ان لوگوں کو قرآن کی آیت سنانا ضروی ہے جو دنیا بھر میں عدل اجتماعی قائم کرنے کے علمبردار ہیں:
’’ایمان والو! انصاف پر قائم رہنے والے بنو، اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے۔ اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ تمھارے ہر عمل سے باخبر ہے۔‘‘،(مائدہ8:5)
اگر خدا اور آخرت نام کی کسی حقیقت کو آپ مانتے ہیں تو مجھے نہیں معلوم آج کے بعد آپ کو نیند کیسے آجائے گی؟

آخری بات صرف یہ ہے کہ جو اعتراضات آپ نے نقل کیے ہیں وہ صرف آپ اور آپ جیسے چند اور مہربانوں کے ذہن کی ایجاد ہیں۔ عام لوگوں کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو اصلاح اور ہدایت کا ذریعہ بنا دیا ہے۔میں شیطان کے خلاف جنگ لڑ رہا ہوں۔ آپ بھی اس کی نصرت و حمایت میں اترنا چاہتے ہیں تومرحبا۔ اللہ ہمارے فیصلہ کر دے گا۔ میرا بھروسہ اسی پر ہے۔ حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔ نعم المولی و نعم النصیر۔

بندہ عاجز
ابو یحییٰ
abuyahya267@gmail.com

(بدقسمتی سے اس کتاب کی اشاعت تک مجھے میرے خط کا جواب مجھے نہیں ملا۔ حالانکہ یہ خط بذریعہ ٹی سی ایس ناقد موصوف کے ہاتھ میں اگلے دن پہنچ گیا تھا۔ مگر حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اسی دوران میں انہی ناقد کے خلاف ایک مذہبی گروہ کی تنقید مجھے ای میل پر ملی۔ اس میں ان صاحب کے سیاسی نظریات کو ’’باطل‘‘ قرار دے کر ان کا محاکمہ کیا گیا تھا۔ یہ کیسا مقام عبرت ہے، ابو یحییٰ)